حادثے کا اگرچہ کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا اور حادثے بظاہر اچانک ہی ہوتے ہیں‘ لیکن پس پردہ کئی عوامل اپنا کام دکھا رہے ہوتے ہیں۔ ہر حادثہ اپنے پہلو میں عبرت اور سبق کے کئی ابواب رکھتا ہے۔ آجکل اگرچہ فضائی حادثات کچھ زیادہ ہی ہونے لگے ہیں جس کی وجہ سے فضائی سفر کبھی کبھار خوف کی لہر بھی پیدا کر دیتا ہے۔ حال ہی میں نلتر فضائی حادثے نے پورے ملک کی فضا کو سوگوار کر دیا۔ جمعہ کے دن 29 ممالک کے سفیروں‘ ان کی فیملیز کے ساتھ گلگت کیلئے ترتیب دیئے جانے والا خوبصورت پروگرام اس وقت غم کی تصویر میں ڈھل گیا جب آئی ایم 17 ہیلی کاپٹر کا حادثہ ہوا۔ اس میں ملائیشیا‘ انڈونیشیا کے سفیروں کی بیویاں جبکہ فلپائن اور ناروے کے سفیر بھی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ملائیشیا اور رومانیہ کے سفیر زخمی ہو گئے۔ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ پاکستان کی طرف سے سوگواروں کی ہرممکن اشک شوئی کی گئی ہے۔ شہداء کی نمازجنازہ میں تینوں مسلح افواج کے سربراہ شامل تھے جبکہ جنرل راحیل شریف نے آگے بڑھ کر لواحقین کو دلاسہ دیا۔ حادثے کی وجہ فنی خرابی بیان کی گئی ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ اتنے اہم ٹرپ پر اہم شخصیات کو لے جانے سے قبل ہیلی کاپٹروں کی فنی خرابی پر نظرثانی کیوں نہیں کی گئی۔ پائلٹ کی تربیت میں کیا کوئی خرابی تھی یا اناڑی تھا۔ فنی خرابی کہہ کر ہم ضائع ہونے والی جانوں کا ازالہ نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں ہر سال کئی ہوائی حادثے ہو جاتے ہیں‘ لیکن ان حادثات کی روک تھام کیلئے کبھی مؤثر اقدامات نہیں کئے گئے۔ 2014ء میں ایک درجن کے قریب چھوٹے بڑے حادثے ہوئے۔ اس کی وجہ جہاں پائلٹ کا کنٹرول ختم ہونا تھا‘ وہاں جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی فنی خرابیوں کا جائزہ نہ لینا بھی تھا۔ اہم اور مہنگے سفر پر جانے والے طیاروں کو مال بردار گاڑیوں کی طرح چلانا ہمارے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے۔ مرنے والوں کو نہ زندہ کیا جا سکتا اور نہ مرنے والوں کے لواحقین کے زخموں کو بھرا جا سکتا‘ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے سنجیدہ رویہ نہیں ہے۔ پاکستان میں ہر سال دو درجن سے زائد ٹرین حادثات رونما ہوتے ہیں جبکہ روڈ ایکسیڈنٹ میں پاکستان اس وقت دنیا کے تمام مالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں روزانہ لگ بھگ اڑھائی سو ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں جس میں سو سے زائد افراد مر جاتے ہیں۔ زخمی ہونے والے افراد کی تعداد تین سے چار سو کے قریب ہوتی ہے۔ بظاہر یہ حادثات ہیں‘ لیکن دیکھا جائے تو یہ سب ناقص تربیت کا شاخسانہ ہے۔ لاپروائی اور غیر ذمہ داری اس کی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔ سفارش اور رشوت سے لائسنس مل جاتے ہیں‘ اکثر کم تعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ افراد کو میرٹ کے بجائے اقرباپروری اور سفارش‘ رشوت‘ جعلسازی کی بنیاد پر یہ عہدے تفویض کر دیئے جاتے ہیں جن کے وہ کسی طرح اہل نہیں ہوتے۔ اس وقت کراچی میں جو روزانہ حادثات رونما ہو رہے ہیں‘ ان کی صورتحال اتنی دردناک نہیں ہے کہ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ جیسے کراچی کشمیر‘ فلسطین اور عراق بنا دیا گیا ہے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ عام ہے۔ لوگ گاجر مولی کی طرح مار دیئے جاتے ہیں۔ انسانی جانوں کا مذاق بنا دیا گیا ہے۔ ہر روز 25 سے 55 سال کے درجنوں افراد قتل کر دیئے جاتے ہیں۔ پولیس کو بھی بے رحمی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ کیا سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت انسانوں کو ہلاک کرنا حادثہ کہلایا جا سکتا ہے۔ حادثہ کی تعریف تو یہ ہے کہ جو اچانک اور قدرتی طورپر واقع ہو۔ اسی طرح ٹرینوں میں آگ لگانا‘ ٹرین کا بوگیوں سے اترنا یا ٹرین کا دوسری ٹرین سے ٹکرانا تو غیر ذمہ داری اور غیر تربیت یافتہ ہاتھوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ پنجاب میں روزانہ دو کروڑ کے ڈاکے پڑتے ہیں‘ جن کے گھر لٹتے ہیں اور جنہیں ڈاکو گولیاں مار جاتے ہیں‘ ان کیلئے تو یہ زندگی بھر کا حادثہ بن جاتا ہے کیونکہ جو لوگ مزاحمت میں مارے جاتے ہیں‘ وہ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جسے ’’حادثے‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اصل میں تو وہ لاء اینڈ آرڈر کی خراب سچوایشن ہے جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آتا ہے۔ اب ایاز صادق سپیکر قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 میں 93852 ووٹوںپر انگوٹھوں کی تصدیق بقول نادرا نہیں ہو سکتی ہے۔ اس صورتحال کو نادرا ایک واقعہ قرار دے گی‘ الیکشن کمیشن اسے ڈرامے کہے گا‘ الیکشن ٹربیونل اسے کارروائی کہے گا‘ مسلم لیگ (ن) اسے سازش قرار دے گی۔ عمران خان اس صورتحال کو حادثہ قرار دیں گے۔ اگرچہ یہ قوم اور جمہوریت کیلئے سانحہ عظیم ہے۔ بحیثیت انسان غلطیاں ہم سب سے ہوتی ہیں۔ ہم غلطی نہ کریں تو انسان نہ رہیں۔ فرشتہ تو خیر ہم بن نہیں سکتے‘ مگر ہمیں شیطان بھی نہیں بن جانا چاہئے۔ اپنی سفلی خواہشات کی تکمیل کیلئے انسان دوسروں کے حقوق پرڈاکہ ڈالتا ہے۔ خود ناانصافی اور عدم مساوات کا مرتکب ہوتا ہے‘ لیکن دوسروں سے انصاف کا طالب رہتا ہے۔ آپ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو دیکھیں کہ بالکل وزیراعظم کی طرح پورے سکواڈ کے ساتھ بڑے کروفر سے گاڑیوں کا میلہ لیکر نکلتے ہیں۔ جب اپنی پارٹی سے خطاب کرتے اور کارکنوں سے ملتے ہیں تو ان کا رویہ ایک آمر جیسا ہوتا ہے۔ پاکستان میں جس جمہوریت کا راگ یہ سارے پارٹی لیڈر الاپتے ہیں‘ سبھی اپنی ذات میں مطلق العنان آمر ہیں۔ ہر کوئی جمہوریت پسند ہے نہ جمہوریت نواز ہے۔ سبھی بادشاہ سلامت ہیں اور خوشامدیوں کے ٹولے میں خوش رہتے ہیں۔ اقرباپروری‘ سفارشوں‘ رشوتوں کے اس بازار میںایک طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ جب غلط لوگ غلط جگہوں پر بیٹھے ہونگے تو ایسے ہی واقعات جنم لیں گے جنہیں اپنی کوتاہی چھپانے کیلئے ’’حادثے‘‘ کا نام دیا جاتا رہے گا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024