تھر کے علاقے میں ہزاروں بچے بھوک اور پیاس سے سسک سسک کر مرگئے ایک مخصوص طبقہ فکر نے مذہب کے نام پر بیس کروڑ پاکستانیوں کو یرغمال بنانا چاہا، چور کو حاجی صاحب اور قاتل کو شہید بنانا چاہا، اس فلسفے کی بھینٹ ایک لاکھ ہموطنوں کو چڑھا دیا گیا، دس ہزار عسکری جوان اور افسران خون میں نہلا دئیے گئے، لاکھوں پاکستانیوں کو اپاہج، ہزاروں مائوں کی گود اجاڑ دی گئی۔ ان گنت سہاگنوں کے سہاگ چھن گئے مگر ہمیشہ سے اقتدار کا بھوکا طبقہ قاتلوں سے مذاکرات پر بضد تھا۔ قاتلوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور قاتلوں کو ہیلی کاپٹر سروس مہیا کرنے کی پیش کش کی گئی۔ جی ایچ کیو جو پاکستان کی ساکھ کی علامت ہے پر بزدلانہ حملہ کیا گیا، کینٹ میں نماز جمعہ پڑھتے فوجی جوانوں اور ان کے لواحقین کو شہید کیا گیا۔ مہران نیول ایئربیس پر حملہ کر کے اربوں روپے مالیت کے طیارے اور انفراسٹرکچر تباہ کیا گیا۔ کامرہ ایئربیس میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ قتل و غارت کے دوران مذہبی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کو بھی نہ بخشا گیا۔ غیر ملکی مہمان کرکٹ ٹیم پر حملہ کر کے ملک کی بچی کھچی ساکھ بھی تباہ کر دی گئی۔ مسجدیں تو پہلے ہی ویران کی جا چکی تھیں۔ کھیل کے میدان بھی سنسان بنا دئیے گئے بے حسی کی سرحدوں کو چھوتے ہوئے جنازہ گاہوں کو بھی نشانہ بنیا گیا جس سے اس قدر خوف پھیلا گیا کہ جنازہ تو موجود تھا مگر جنازہ پڑھنے والے خوف سے دبکے بیٹھے تھے۔ قاتل ایک طرف مملکت کو مذاکرات کا چکمہ دیتے، دوسری طرف ریاست ہی کو تباہ کرنے پرتلے ہوئے تھے ملک کے سب سے بڑے ایئرپورٹ کو یرغمال بنا کر اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا اور پھر سفاکی کی انتہا کرتے ہوئے درندہ صفت وحشیوں نے پشاور میں معصوم بچوں کے سکول پر حملہ کر کے بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ جس سے بیس کروڑ پاکستانیوں کے کلیجے نکل کر باہر آ گئے۔ معصوم بچوں کے سفاکانہ قتل کے بعد عین ممکن تھا کہ عوام قانون ہاتھ میں لے کر ہتھیار اٹھا لیتے مگر اس موقع پر نئی عسکری قیادت نے قومی اور عسکری جذبات کو سمجھتے ہوئے دانش مندانہ اور دلیرانہ فیصلہ کیا۔ اب بال کمزور، نحیف اور لاغر حکومتی کورٹ میں تھی۔ سیاسی پنڈتوں کو شاید یہ ادراک ہوا کہ اب عوامی خون کے بہنے کا موسم ختم ہو گیا ہے اور قومی غیض و غضب کو دیکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتیں اس ایک نکتے پر اکٹھی ہو گئیں کہ ہمیں دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام پر مہر ثبت کرنا ہو گی۔ خاص طور پر کراچی میں جہاں پر صوبائی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے جبکہ پیپلزپارٹی ہی کی سابقہ وفاقی حکومت کرپشن کے پانچ سال تو پورے کر گئی مگر اس دوران ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ شتر بے مہار کا روپ دھار چکے تھے۔ جبکہ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی بھی بھائیوں سمیت کرپشن کی اس دلدل میں اس حد تک پھنس چکے تھے کہ انہیں وانا سوات، شمالی و جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کی خود ساختہ متبادل حکومت نظر نہیں آ رہی تھی غرض کہ اس وقت کی عسکری قیادت دشمن کی طرف سے سرحدوں کی خلاف ورزیوں پر بھی عاقبت نااندیشی کا شکار رہی۔ پنجاب میں صوبائی حکومت کمیشنوں اور کک بیکس سے مال بنا رہی تھی اور وفاق میں زرداری ٹولہ ملک کی اساس کو دائو پر لگا کر کرپشن کا بحرالکاہل عبور کر چکا تھا۔ لاہور، اسلام آباد اور پنجاب کو لوٹنے کے بعد ملک کے ایک رئیل اسٹیٹ ’’آئی کون‘‘ کو سندھ تھالی میں رکھ کر پیش کر دیا گیا اور صرف کراچی کے ساحل کے ساتھ پانچ لاکھ ایکڑ زمین اس پراپرٹی ماسٹر کو دے دی گئی جبکہ سکھر، نواب شاہ، حیدرآباد اور لاڑکانہ میں عطا کی جانے والی لاکھوں ایکڑ اراضی اس کے علاوہ ہے۔ اس کام میں ایم کیو ایم کی قیادت بھی نقدی کی صورت میں اپنا حصہ وصول کر چکی ہے جس کے بدلے میں لاہور میں بلاول ہائوس اور حیدر آباد اور کراچی میں الطاف حسین کے نام سے یونیورسٹیاں منسوب کی جائیں گی۔ یوں تو میرٹ کا مذاق ہر صوبے میں ہی اڑایا گیا مگر آسیب زدہ کراچی کو واٹر بورڈ مافیا اور زمینوں کی ’’چائنہ کٹنگ‘‘ اور حدیں عبور کرتی ہوئی بھتہ خور مافیا اور سٹیل مل اور پولیس میں ہزاروں نااہل افراد کو بھرتی کرکے کراچی کو افریقہ کا کوئی شہر بنا دیا گیا۔ سابق اور موجودہ وفاقی حکومت شہریوں کو تحفظ دینے میں بری طرح ناکام ہیں جس سے صرف گزشتہ سات سال میں ایک سو ارب ڈالرز ملک سے باہر منتقل ہو چکے ہیں۔ چھوٹے بڑے سینکڑوں پاکستانی سرمایہ کار بنگلہ دیش، سنگا پور، ہانگ کانگ، ملائیشیا، دوبئی، ابوظہبی، لندن، کینیڈا حتی کہ بھارت کا رخ کر چکے ہیں۔ عین ممکن تھا کہ یہ خون پینے والے ڈریکولے بچے کھچے پاکستان کی ہڈیاں بھی چپا جاتے کہ موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور ہمارا فخر ہماری آئی ایس آئی کی قیادت نے تہیہ کر لیا ہے کہ اب کی بار دہشت گردوں کا انکے بلوں تک اور کرپشن زدہ طبقے کا ان کے ملکی اور غیر ملکی اکائونٹس تک ان کا پیچھا کیا جائیگا اور لوٹا ہوا دو سو ارب ڈالرز کا ملکی خزانہ پاکستان واپس لایا جائیگا۔میری اطلاع کے مطابق لاہور، کراچی، کوئٹہ سمیت ملک کے دیگر شہروں سے پانچ ہزار ایسے لوگوں کی فہرستیں تیار ہو چکی ہیں جنہیں کسی بھی وقت حراست میں لیا جا سکتا ہے۔ جبکہ کچھ سابق وزرائے اعظم و سربراہان مملکت وزیروں، سفیروں، مشیروں کی وی وی آئی پی لسٹیں بھی آویزاں ہونے والی ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو ان معاشی دہشت گردوں کو اپنے اپنے شہر کے بجلی کے کھمبوں کے ساتھ لٹکایا جائے گا۔ جھورا جہاز کہہ رہا تھا کہ بہت سے سرکاری افسران اور موجودہ حکمرانوں نے اپنے بال بچوں کو ملک سے باہر شفٹ کرا دیا ہے اور طبل جنگ کسی بھی لمحے بج سکتا ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا
o
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024