راہداری پر وزیراعلیٰ بلوچستان کو بھی شکوہ‘ این ایف سی ایوارڈ میں ممکنہ تاخیر غیرآئینی قرار ‘ حصہ رقبے کی بنیاد پر دینے کی تجویز
وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے تجویز دی ہے کہ وفاقی قابل تقسیم پول سے صوبوں کوانکے رقبے کے لحاظ سے شیئر دیا جانا چاہئے، آبادی کی بنیاد پر نہیں۔لاہور میںپریس کانفرنس اور ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر مالک نے کہا کہ انہیں اس بات کی امید نہیں کہ آئندہ مالیاتی ایوارڈ کا بروقت اعلان ہو گا۔ اگر اس میں تاخیر ہوئی تو یہ غیر آئینی بات ہو گی۔انہوں نے کہا کہ مرکز کو اپنا حصہ کم کرکے وفاقی یونٹوں کومزید فنڈز دینے چاہئیں تاکہ وہ مزید ترقیاتی منصوبے شروع کر سکیں۔ بلوچستان میں معدنیات کے بے شمار ذخائر ہیں لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں۔جہالت اور غربت بلوچستان کے دو اہم مسئلے ہیں۔ کسی غیر ملکی کمپنی کو بلوچستان کے وسائل لوٹنے نہیں دینگے۔ پاکستان چین منصوبوں کے مثبت اثرات بلوچستان کے عوام پر بھی ہونگے۔ اقتصادی راہداری کا فائدہ پہلے گوادر، پھر بلوچستان اور پھر ملک کو ہونا چاہئے۔ عبدالمالک بلوچ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیاگیا‘ نہ پہلے روٹ کا پتہ ہے اور نہ دوسرے روٹ کا علم ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ہم عوام کو جوڑ رہے ہیں، اس کیلئے نفرتوں کے ہمالیہ کو گرانے کی ضرورت ہے۔اقتصادی راہداری سمیت تمام مسائل کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کیا جانا چاہیے۔
بلوچستان آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے چھوٹا جبکہ رقبے میں سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس میں معدنی ذخائر کا کوئی شمار قطار نہیں۔ تیل اور گیس کے بڑے ذخائر بھی اسی صوبے میں ہیں‘ جن سے پورا ملک استفادہ کرتا ہے۔ سونے کے 100 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے ذخائر بھی بلوچستان میں ہیں‘ وسائل کی مناسبت سے بلوچستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال ہونا چاہیے مگر یہاں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا درست ہے کہ معدنیات کے بے شمار ذخائر موجود ہیں لیکن لوگ مررہے ہیں۔ انہوں نے درست نشاندہی کی کہ جہالت اور غربت بلوچستان کے دو اہم مسئلے ہیں۔ ایسے ہی مسائل سے پورا ملک دوچار ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی طرف سے افرادی قوت انڈیکس سے متعلق جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ انہی مسائل کی تصدیق کرتی ہے جس میں بتایا گیاہے کہ پاکستان اس حوالے سے دنیا کے 124 ملکوں میں سے 113 ویںنمبر پر ہے جس کی ایک بڑی وجہ تعلیم کے شعبے میں خراب کارکردگی ہے۔ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ اس لحاظ سے حکومتی عدم توجہی کا شکار رہا ہے کہ اس کیلئے سالانہ قومی بجٹ کا صرف دو فیصد ہی مختص کیا جاتا ہے جبکہ ماہرین مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد مختص کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اسکے علاوہ ملک میں سکول جانے کی عمر کے تقریباً اڑھائی کروڑ بچے بھی سکول نہیں جاتے جس کی وجہ غربت اور سکولوں تک بہت سے لوگوں کی رسائی نہ ہونا بتائی جاتی ہے۔ جہالت کے اندھیرے تعلیم کی روشنی ہی سے دور ہو سکتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ ہمارے حکمرانوں کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے پاکستان میں 2010ء کے آخر تک ہر بچے کو سکول داخل کرانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ اب پتہ چلا کہ اڑھائی کروڑ بچے آج بھی بنیادی تعلیم کے حصول کے حق سے محروم ہیں۔ مرکزی حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری کی نہ دیگر صوبوں نے اور نہ ہی عبدالمالک بلوچ اپنے دو سال کے دور حکومت میں بلوچستان میں غربت اور جہالت کے خاتمے میں کوئی انقلابی اقدامات اٹھا سکے۔
بلوچستان کے معدنی وسائل کو آخر کس نے بروئے کار لانا تھا؟ بلوچستان کے لوگوں کی پسماندگی‘ غربت اور افلاس کا ذمہ دار کون ہے۔ کیا وہ لوگ اسکے ذمہ دار نہیں جو عوامی نمائندگی کے دعوے دار ہیں اور کروڑوں کے ترقیاتی فنڈز کا ایک روپیہ بھی علاقے میں لگانے کو حرام سمجھتے ہیں؟ ڈاکٹر عبدالمالک کہتے ہیں کہ غیرملکی کمپنیوں کو بلوچستان کے وسائل لوٹنے نہیں دینگے‘ گویا مقامی وڈیرے جو صوبے کے وسائل بے دردی سے لوٹ رہے ہیں‘ ان پر لوٹ مار کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ ریکوڈک سونے کے ذخائر کن لوگوں نے کوڑیوں کے بھائو بیچے‘ کیا ان کا محاسبہ کیا گیا؟ بلوچستان میں دیگر صوبوں کی طرح اسمبلی موجود ہے‘ اسکے اپنے نمائندے اور وزیراعلیٰ ہے۔ ان کو کس نے وسائل کے استعمال سے روکا ہے؟ وسائل سے مالامال صوبے کو مدد کیلئے مرکز کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہیے مگر اپنے حصے میں دستبردار ہونے کا بھی مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔ این ایف سی ایوارڈ ہر صوبے کا حق ہے۔ مرکز کو اس کا بروقت اعلان کرنا چاہیے۔ اس میں تاخیر سے مرکز اور کم حصے کا گلا کرنیوالے صوبوں میں غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ مرکزی حکومت اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے۔ تاہم ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی تجویز عجیب اور ناقابل فہم ہے کہ وفاقی قابل تقسیم پول سے صوبوں کو انکے رقبے کے لحاظ سے شیئر دیا جائے‘ آبادی کی بنیاد پر نہیں۔ یہ شیئر آبادی کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر مقرر کیا گیا ہے۔ رقبے پر کیسے تقسیم ہو سکتا ہے۔ بلوچستان چونکہ رقبے میں بڑا ہے اس لئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے رقبے کی مناسبت سے شیئر کا مطالبہ کردیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اپنے مسائل کے مطابق مرکز سے خصوصی گرانٹ کی بات کر سکتے ہیں جو قومی مالیاتی فنڈ میں غربت کے تناسب سے پہلے بھی مختص ہوتی ہے۔ ایسے مطالبہ کو یقیناً مرکزی حکومت پذیرائی بخشے گی‘ مگر ناقابل فہم اور ناقابل عمل فارمولے پیش کرکے بلوچستان کے وزیراعلیٰ نہ جانے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالمالک نے پاک چین راہداری کے فائدے کے حوالے سے درست درجہ بندی کی ہے‘ اصولی طور پر اس کا پہلے فائدہ گوادر پھر بلوچستان اور پھر ملک کو ہونا چاہیے۔ فطری طور پر بھی ایسا ہی ہوگا۔ گوادر پورٹ اپریشنل ہوتی ہے تو گوادر کی کایا پلٹ جائیگی اور بلوچستان بھی خوشحال ہو گا‘ بشرطیکہ بلوچستان کے دیگر وسائل کی طرح پورٹ کے ثمرات وڈیروں کی دستبرد سے محفوظ رہے۔گوادر تک چین سے مال برداری کی دوطرفہ رسائی شاہراہوں کے ذریعے ہو یا سمندر کے راستے۔ گوادر کی ہر دو صورتوں میں آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں اور روس کی گرم پانیوں تک رسائی بھی اسی بندرگاہ کے ذریعے ہو گی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ گوادر اور بلوچستان ترقی و خوشحالی کے کس زینے پر ہونگے۔ گوادر پورٹ کے فنکشنل ہونے کے امکانات بھارت کے دل پر زخم ثابت ہوئے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے معاہدوں نے ان زخموں پر نمک چھڑک دیا‘ بھارت ان معاہدوں پر تلملا رہا ہے۔ اسکی طرف سے راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کی سازشیں شروع ہو گئی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ لوگ بھی بھارت کی زبان میں راہداری کی مخالفت پر اتر آئے ہیں۔
اسفندیار ولی تو کہتے ہیں کہ راہداری منصوبے میں تبدیلی کی گئی تو اسے کالاباغ ڈیم کی طرح ایشو بنا دینگے۔ مولانا فضل الرحمان بھی مبینہ تبدیلی کی مخالفت کررہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کی رائے میںمولانا کے تحفظات تو ایک آدھ وزارت سے دور ہو سکتے ہیں‘ دیگر کو یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ خدا کا خوف کریں‘ ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیں۔ ویسے تو اقتصادی راہداری سے کسی کے بھی ذاتی مفاد کو زک نہیں پہنچ رہی۔ راہداری کی مخالفت دشمن کا ایجنڈا ہے‘ کچھ لوگ دانستہ نادانستہ اس ایجنڈے کی تکمیل کررہے ہیں۔ ان میں اب عبدالمالک بلوچ بھی شامل ہو چکے ہیں جو کہتے ہیں راہداری پر ان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ پہلے روٹ کا پتہ ہے نہ دوسرے روٹ کا علم ہے۔ احسن اقبال نے بجا کہا کہ راہداری پر بھارتی واویلا سمجھ آتا ہے‘ اپنے کیوں شور مچارہے ہیں؟ ڈاکٹر عبدالمالک یہ بھی کہتے ہیں کہ نفرتوں کے ہمالہ گرانے کی ضرورت ہے۔ راہداری پر خود کو نظرانداز کرنے کا گلہ اور رقبے کے لحاظ سے حصے کا مطالبہ کیا نفرتیں کم کرنے کی کوشش ہے یا کدورت کا اظہار ہے؟ ڈاکٹر عبدالمالک کی وزارت عُلیہ کی آئینی مدت پانچ سال جبکہ مسلم لیگ (ن) کی نوازش کے اعتراف میں جو معاہدہ ہوا‘ اسکے مطابق اڑھائی سال ہے جس کا اختتام قریب ہے تو ڈاکٹر عبدالمالک انقلابی خیالات کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ ان کو اپنے صوبے کے معاملات میں جذباتی اور انقلابی ضرور ہونا چاہیے مگر اس سے واقعی نفرتوں کی دیواریں گرتی نظر آنی چاہئیں اور قومی مفاد کو کسی صورت گزند نہ پہنچے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024