صدر اوباما کی دعوت پر شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کیمپ ڈیوڈ کانفرنس میں شرکت سے معذرت کی تھی اس انکار سے انکے قد کاٹھ میں اسلامی دنیا میں اضافہ ہوا ہے شائد خلیجی ریاستوں میں سے صرف دو رؤساء نے شرکت کی ہے کانفرنس سے پہلے صدر امریکہ نے ولی عہد محمد بن نایف وزیر داخلہ اور ولی عہد دوئم محمد بن سلمان وزیر دفاع سے خصوصی ملاقات کی تھی۔ شاہ ایران نے متحدہ عرب امارات کے تین جزیروں پر قبضہ کیا تھا جن میں تنب اور ابو موسٰی شامل ہیں۔ آج تک دنیا یہ تین جزیرے تو ایران سے متحدہ عرب امارات کو واپس نہ دلا سکی۔ امریکہ دوستی میں بھلا کیسے یہ جزیرے متحدہ عرب امارت کو واپس ملیں گے؟ یہ ناممکن سی بات ہوگی جبکہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے بعد ایران کو اور کچھ نہ بھی ملے تو اس کا برآمدگی انقلاب عمل کا مورال بہت بلند ہو جائے گا‘ ہمیں ذرا سی بھی حیرت نہ ہوئی جب اپنے ہاں مدعو عرب قیادت سے امریکی صدر نے ایران امریکہ ایٹمی معاہدے میں تعاون دینے کی خواہش پیش کر دی‘ خلیجی عربوں کے ساتھ ایک نہ ایک دن یہ تلخ معاملہ تو ہونا ہی تھا تاریخ کا یہ ورق الٹ چکا ہے امریکہ خلیجی عربوں کیساتھ تحریری مشترکہ دفاعی معاہدے سے بھی انکار کر چکا ہے گویا عربوں کی جو توقعات تھیں امریکہ نے نہایت اخلاقی جرات سے ان کو پورا کرنے سے انکار کر دیا ہے اب خلیجی عربوں کے پاس پرانی تنخواہ پر امریکی تعلقات نبھانے کے سوا کیا راستہ ہے؟ خلیجی ممالک میں امریکی افواج عرب سیاسی مقاصد کو اب شائد پورا نہ کریں گی اب ایران کے مد مقابل یہ افواج نہیں آئینگی۔ سعودی عرب کے پاکستان اور بھارت سے دفاعی معاہدے موجود ہیں مگر بھارت ‘ ایران اور امریکہ اب ایک دوستانہ مستقبل رکھتے ہیں جس میں سعودی عرب کی جارحانہ دفاعی ضروریات پوری کرنے کی حقیقی نیت تو موجود ہی نہ ہو گی اسکا مطلب ہے کہ سعودی عرب کے پاس سیاسی‘ اخلاقی اور دفاعی مدد کیلئے پاکستان کے علاوہ حقیقی مخلص عوامی ماحول موجود نہیں ہوگا اسکے جواب میں سعودی عرب بھلا پاکستانی عوام اورفوج کومستقبل میں کیا دیگا؟ کیا سعودی پالیسوں میں پاکستانی شخصیات کیلئے وہی حقیقی عزت و احترام اور فوائد موجود ہونگے جو سعودی قومیت رکھنے والوں کو میسر ہیں؟ اسی ضرورت کی وجہ سے ہم نے گزشتہ ایک کالم میں شاہ سلمان اور نوجوان سعودی قیادت کو مشورہ دیا تھا کہ واپس شاہ عبدالعزیز عہد میں چلے جائیں جب باہمت ‘ مخلص ‘ مفید مسلمان غیر عرب شخصیات کوسعودی قومیت دیکر انکے وجود سے ریاستی فوائد حاصل کئے جاتے تھے… ماضی کی مخصوص چند مختلف سی دینی جماعتوں سے بلند تر ہو کر وسیع تر نیا حلقہ احباب تلاش کیا جائے جن میں زندگی کے نمایاں طبقات شامل ہوں۔ بطور خاص میڈیا اور دانش و علم اور سائنس و ٹیکنالوجی اور دفاعی میدانوں میں اب عربوں کو اپنے ہی مخلص بھائیوں کے ساتھ چلنا ہوگا یہ وقت کی پیدا کردہ مجبوری ہے مگر کیا ایران اپنے توسیع انقلاب عمل کے اہداف حاصل کر سکے گا؟ شائد نہیں البتہ عربوں کو اس نے جتنا خوفزدہ کرنا تھا اس مقصد میں وہ کامیاب ہے کیا ایران میں بدستور یہی سوچ برقرار رہے گی جو اینٹی سنی بادشاہت ہے؟ یقیناً ‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایران کے اندر ہمیشہ ہی سکون رہے گا‘ ایران کے اندر شدید کشمکش موجود ہے اس کشمکش میں اضافہ بالکل ممکن بات ہوگی‘ ا گر معاہدہ نہ ہو سکا تو ایرانی عوام اپنے فیصلہ سازوں کیخلاف سڑکوں پر آئینگے کیونکہ اقتصادی بحران نے سچ مچ ایرانی عوام کی کمر ہمت توڑ دی ہے کب تک وہ انقلاب کے بھوکے نعروں کیساتھ جئیں گے ویسے بھی موجودہ فیصلہ سازوں کے مد مقابل متوازی سیاسی قوت موجود ہے جب بھی موقعہ ملا عرب بہار کی طرح وہ ایران میں طلوع ہو جائیگی۔ امریکہ نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ اب عرب تیل پر اسکا انحصار نہیں ہوگا‘ گویا امریکہ سنی بادشاہتوں کے ہاتھوں مجبور محض اور یرغمال بنے رہنے کی ضرورت سے آزاد ہو گیا ہے اس کا مطلب ہے کہ خلیجی عربوں کی اہمیت ختم ہو گئی؟ نہیں یہ اہمیت موجود رہے گی کیونکہ مشرق کے ممالک کا انحصار بدستور عرب تیل پر رہے گا امریکہ اور روس کے سوا باقی دنیا کویہ تیل درکار رہے گا‘ لہذاٰ عربوں کی اہمیت رہے گی… اب ذرا وجدان کی بات: مشرق وسطیٰ میں امریکہ نے عربوں کو تنہا کر دیا ہے اسکی ماضی بعید کی خفیہ ایران نواز سرگرمیاں دوستانہ انداز میں اب عملاً سامنے آ گئی ہیں۔ گویا امریکہ خلیجی عربوں کے دل سے اتر گیا ہے اب وہ اس پر سچ مچ کا اعتماد اور انحصار نہ کر سکیں گے۔ امریکہ نے کریمیا کے مسئلے پر پسپائی دکھائی تھی یو کرین پر خاموشی دکھائی البتہ روسی صدر کو ’’تنہا‘‘ ضرور کر دیا ہے انکے تیل کے منصوبوں اور پائپ لائنوں کو بھی ناممکن بنا دیا ہے مگر وجدان بتا رہا ہے کہ امریکہ کیلئے اگلے دو تین سال میں نیا ویت نام سامنے کھڑا ہے۔ ممکن ہے یہ نیا ویت نام مشرق وسطیٰ میں ہو ‘ ممکن ہے یو کرین کے معاملے پر امریکہ و روس میں جنگ کی نوبت آجائے‘ اگلے دو تین سال علاقائی جنگوں سے آگے جاتے اورعالمی جنگ کے خدشات پیدا کر دیتے ہیں۔ پاکستان اور خلیجی ممالک اورسعودی عرب کو مل جل کر مستقبل بین بننا چاہیئے۔ مصری کشمکش: ہم اخوان کے ساتھی اور حامی نہیں ہیں مگر جنرل السسیی کی حکومت کے زیر اثر عدالتوں نے جس طریقے سے سابق صدر مرسی اور انکے 100 ساتھیوں کو موت کی سزا سنائی ہے ہم اسکی مذمت کرتے ہیں اگر یہ سزا وقوع پذیر ہوگئی تو مصر ہی نہیں پورا مشرق وسطیٰ نئی آگ میں جلے گا‘ سعودی دور اندیش اخوان اور مصری فوج میں کچھ صلح کا راستہ پیدا کرائیں ورنہ ایک بار پھر مصر اخوان کی جھولی میں جائیگا بے شک پچاس سال بعد یہ وقت آئے‘ خلیجی بادشاہتوں کیلئے یہ موت کی یہ فضائیں بہت بڑا خطرہ لے کر آئیں گی اور انکے عوام ان کیخلاف سازشوں میں شریک ہو جائینگے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024