
ایک طرف مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف ہنگامہ آرائی میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ مہنگائی قابو میں نہیں آ رہی اور ہنگامے کم نہیں ہو رہے یعنی جس چیز میں کمی آنی چاہیے اس میں کوئی کمی نہیں اور جس کو قابو میں ہونا چاہیے وہ بےقابو ہے۔ مہنگائی مزید 0.96 فیصد بڑھ گئی اور مہنگائی کی مجموعی شرح 47.97 فیصد کی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ ٹماٹر، چائے کا پیکٹ، آلو اور کیلے، چینی بیس کلو آٹے کا تھیلا، خوردنی گھی کا ڈبہ مہنگا ہوا ہے۔ نمک، دودھ، بیف، دہی اور چاول کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اشیاءخوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ تشویش ناک ہے۔ زندگی کا آسان ہونا ضروری ہے۔ ایک طرف مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے رو دوسری طرف سیاسی عدم استحکام اور سیاسی قیادت کے اشتعال انگیز بیانات نے سنجیدہ حلقوں کی تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اس ملک میں دہائیوں سے بدلتے ہوئے حالات دیکھے ہیں وہ پریشان ہیں۔ ان حالات میں لوگ ستر کی دہائی کو یاد کرتے ہوئے انجانے خطرات خوفزدہ ہیں۔ جہاں لگ بھگ چوبیس برس میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا اور پچاس برس کے بعد ایک مرتبہ پھر ویسے ہی حالات کا سامنا ہو تو تشویش میں اضافہ ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ جو کچھ حکمران کر رہے ہیں اگر وہ غیر سیاسی ہے تو جو کچھ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور اس کے کارکنان کر رہے ہیں اس کا دفاع کیسے کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال حالات ٹھیک نہیں، حالات میں بہتری کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آ رہی کیونکہ کوئی بات چیت کے لیے تیار نہیں ہے۔ اداروں کو متنازع بنا دیا گیا ہے۔ دنیا میں ہمارا تماشا بنا ہوا ہے۔ جنہوں نے پاکستان بنایا تھا یا بنتے دیکھا تھا ان کے پاس جائیں ان کے دل کی بات سنیں ان کے آنسو نہیں تھمتے۔ انہوں نے انیس سو سینتالیس سے آج تک بہت بڑے بڑے حادثات و سانحات کو برداشت کیا وہ آج بھی ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی اور پارٹی رہنما غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔
عمران خان مقبولیت کے زعم میں مبتلا ہیں ، وہ ہوش سے کام لیں۔عمران خان کے قریبی ساتھی اور پارٹی رہنما طوفان برپا کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ خبریں یا الزامات ہوش اڑانے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ان حالات کو دیکھتا ہوں تو احمد فراز یاد آتے ہیں انہوں نے برسوں پہلے لکھا تھا
اے میرے سارے لوگو
اب مرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی مرا نصف بدن کاٹ چکی
اسی بندوق کی نالی ہے مری سمت کہ جو
اس سے پہلے مری شہ رگ کا لہو چاٹ چکی
پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں
پھر مرے شہر میں بار±ود کی ب±و پھیلی ہے
پھر سے "ت±و کون ہے میں کون ہوں" آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میانِ من و ت±و پھیلی ہے
مری بستی سے پرے بھی مرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر مری جانب لپکے
میرے سینے میں سدا اپنا ہی خنجر اترا
پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر ہوئیں عام وہی اہلِ ریا کی باتیں
نعرئہ ح±بِّ وطن مالِ تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح دینِ خدا کی باتیں
اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبحِ وحشت کی طرح شامِ غریباں کی طرح
اس سے پہلے بھی تو پیمانِ وفا ٹوٹے تھے
شیشئہ دل کی طرح آئین جاں کی طرح
پھر کہاں احمریں ہونٹوں پہ دعاو¿ں کے دیے
پھر کہاں شبنمیں چہروں پہ رفاقت کی ردا
صندلیں پاو¿ں سے مستانہ روی روٹھ گئی
مرمریں ہاتھوں پہ جل ب±جھ گیا انگارِ حنا
دل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ بازو کے لئے زلف کا بادل رویا
مثلِ پیراہنِ گل پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دونیم
نوکِ دشنہ سے کھچی تھی مری دھرتی پہ لکیر
آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
اے مرے سوختہ جانو مرے پیارے لوگو
اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
میرے دلگیر مرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب کسی ظالم کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا مرے سارے لوگو
کیا آج سارے لوگ ایک ہیں،کیا سب آنے والی قیامت کا راستہ ہموار نہیں کر رہے،کیا آج سارے لوگ آفت کو دعوت کا سامان نہیں کر رہے، کیا آج سارے لوگ چلتی گولیوں کے انجام سے بے خبر ہیں۔ کیا یہ سب نہیں جانتے کہ تاریخ کیا سکھاتی ہے۔
اللی میرے ملک پر رحم کرے، میرے ملک کے لوگوں کو بہتر فیصلے اور سیاسی قیادت کو اتحاد، اتفاق نصیب فرمائے۔
پاکستان میں سیاسی حالات خراب ہیں یہ ساری خرابی انتخابی عمل کہ وجہ سے ہے کبھی انتخابات ہونے پر مسئلہ ہے کبھی انتخابات نہ ہونے پر مسئلہ ہے۔ کبھی انتخابات کے نتائج پر مسئلہ ہے تو کبھی بندوں کے ٹوٹنے کا مسئلہ ہے۔ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو یہ ضمانت نہیں ہے کہ حالات معمول پر آ جائیں گے۔ انتخابات سے پہلے سب سے اہم یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر اداروں کو تحریری ضمانت جمع کروائیں کہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم کیا جائے گا اور کوئی بھی جماعت یا کسی بھی جماعت سے کوئی رہنما انتخابی نتائج کو بنیاد بنا کر سڑکوں پر نہیں آئے گا۔ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو سب تسلیم کرتے ہوئے اپنا اپنا کام کریں گے۔ تین بڑے اداروں کے تین بڑے سربراہوں کو موجودہ حالات میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کیا سیاسی جماعتوں کو اتنی آزادی دی جا سکتی ہے کہ وہ ملک کے مستقبل کو ہی داو پر لگا دیں۔ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں لیکن ہم سرکاری املاک کو آگ لگا کر فخر محسوس کرتے ہیں ہم نے کچھ اور فتح کرنا تھا لیکن ہم اپنے ہی شہروں کہ سڑکوں چوراہوں کو فتح کرنے اور اپنے اپنے جھنڈے لگانے میں مصروف ہیں۔ ملک میں آئین و قانون کی عملداری کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہے۔