
کوثرنیازی کی دوسری ناراضی اس وقت ہوئی جب ’وفاق‘ مارچ 1965ءمیں لاہور سے شائع ہونے لگا اور اس میں جناب رفیع الدین ہاشمی (اب ممتازماہر اقبالیات) کالم لکھنے لگے۔ رفیع الدین ہاشمی ضلع سرگودھا کی جماعت اسلامی کے امیر مولانا حکیم عبدالرحمن ہاشمی کے بھتیجے اور جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے پرستار سید محبوب شاہ ہاشمی کے صاحبزادے ہیں۔ کوثر نیازی جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کرنے اور مولانا مودودی پر ناروا تنقید کے باعث جماعت کے حلقوں میں ایک ناپسندیدہ شخصیت شمار ہونے لگے تھے۔ رفیع الدین ہاشمی کے ایک دو کالموں پر اپنا اختلاف اور احتجاج ریکارڈ کرنے کے لیے جناب کوثر نیازی میکلوڈ روڈ پر چٹان بلڈنگ کی پہلی منزل میں روزنامہ ’وفاق‘ کے دفتر تشریف لائے۔ وہ سخت ناراض تھے اور مصطفی صادق اور کوثر نیازی کے مشترکہ دوست حاجی برکت علی بار بار ان کے مابین کشیدہ ماحول کو ٹھنڈا کرنے او رٹھنڈا رکھنے کے لیے ہاتھ پاﺅں مارتے رہے مگر کوثر نیازی یہ کہتے ہوئے اٹھ کر چلے گئے کہ میں مولانا احتشام الحق تھانوی کے ساتھ سیرت کانفرنسوں سے خطاب کرتا ہوں، پوسٹروں میں مجھے ’خطیب اسلام‘ لکھا جاتا ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ’وفاق‘ میں میرے نام کے ساتھ ’مولانا‘ نہیں لکھا جاتا۔ حاجی برکت علی نے بھی انھیں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی مگر کوثر صاحب روٹھ کر چلے گئے۔ پھر ’شہاب‘ کا وہ زمانہ آگیا جب وہ ہفت روزوں کے معروف سائز سے اخباری سائز پر آگیا اور اس کے مدیروں میں نذیر ناجی اور کئی دوسرے ترقی پسند اہل قلم شامل ہوئے اور یہ جارحیت اس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گئی جب مولانا مودودی کی ایسی تصویر شائع کی گئی جس میں ان کے دھڑ پر ایک فلمی اداکارہ کا چہرہ لگایا گیا تھا اور اس طرح جماعت اسلامی کے بانی کی تضحیک کی گئی۔ کوثر نیازی کا مو¿قف یہ تھا کہ وہ اس حرکت سے لا علم تھے اور اخبار کی ادارت چونکہ عملاً ناجی صاحب کے ہاتھ میں تھی اس لیے وہی اس کارنامہ کے واحد ذمہ دار تھے، ’شہاب‘ کی اس دیدہ دلیری سے دینی حلقوں میں کوثر نیازی کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ مصطفی صادق اور راقم بھی ان کی اس روش کو ناپسند کرنے والوں میں شامل تھے اور دفتر ’وفاق‘ سے ان کے ناراض ہوکر چلے جانے کے بعد سے ہمارے درمیان کوئی رابطہ بھی نہیں تھا۔
1970ءکے عام انتخابات میں کوثر نیازی بھی (اگرچہ وہ بہاول پور جیل میں نظر بند تھے) سیالکوٹ کے ایک حلقہ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے اوربھٹو صاحب نے انھیں اطلاعات و نشریات کے لیے اپنا مشیر مقرر کردیا۔ انھوں نے اپنی اس نئی حیثیت میں لاہور کے ایڈیٹروں کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ، فین روڈ (جو ہائی کورٹ کے عقب میں ممتاز قانون دان اور بھٹو صاحب کی کابینہ کے وزیر قانون میاں محمود علی قصوری کی کوٹھی میں واقع تھا)، دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ کوثر نیازی سے بدمزگی کے پس منظر میں مصطفی صادق اس کھانے میں شریک ہونے پر آمادہ نہ ہوئے، میں نے نہ صرف اس میں رضاکارانہ طور پر ’وفاق‘ کی نمائندگی کے لیے خود کو پیش کیا بلکہ یہ تجویز بھی دی کہ اب ہمیں کوثر نیازی کی بطور مشیر تقرری کا احترام کرتے ہوئے انھیں ’وفاق‘ میں صرف کوثر نیازی لکھنے کے بجائے ’مولانا کوثر نیازی‘ لکھنا چاہیے تاکہ ہمارے مابین کشیدگی ختم ہوجائے۔ بہرحال میں مشیرِ اطلاعات کے ظہرانہ میں شریک ہونے کے لیے فین روڈ گیا۔ کوثر نیازی پہلے ہی تشریف فرما تھے اور اگلی کرسیاں پُر ہوچکی تھیں۔ میں پچھلی نشستوں پر ایک خالی کرسی دیکھ کر وہیں بیٹھ گیا۔ اسی اثناءمیں کوثر نیازی کی نظر مجھ پر پڑی، مجھے دیکھتے ہی انھوں نے بلند آواز سے کہا، ’جمیل اطہر صاحب آپ آگے آجائیں!‘ میں نے اصرار کیا کہ میں یہاں ٹھیک بیٹھا ہوں، کوثر نیازی نے پھر زور دے کر کہا کہ آپ میرے قریب آجائیں اور ایک صاحب کو یہ کہتے ہوئے ان کی نشست سے اٹھا کر کسی دوسری جگہ بیٹھنے کے لیے کہا، ’بھئی یہ تو ’مساوات‘ کے آدمی ہیں یہ کہیںبھی بیٹھ جائیں‘۔ کوثر نیازی کی گفتگو ختم ہوئی، ہم کھانے کی طرف بڑھے اور کوثر صاحب نے میرے قریب آکر سرگوشی کی۔
’بھئی وہ ہمارے مصطفی صادق کیسے ہیں؟‘ میں نے عرض کیا، ’جی،ان کی طبیعت قدرے ناساز تھی اس لیے میں ان کی نمائندگی کررہا ہوں‘۔ کوثر صاحب نے فرمایا، ’بھئی ! میرا سلام کہیں ان سے، میں ان سے ملنے آﺅں گا‘۔دفتر پہنچ کر میںنے مصطفی صادق کوجو اپنے اور ’تسنیم‘ کے دوستوں، ارشاد احمد حقانی اور محی الدین سلفی کے ساتھ خوش گپی میں مصروف تھے، کوثر نیازی سے اپنی ملاقات اور مکالمہ کی تفصیلی رپورٹ دی۔ حقانی صاحب نے کہا، ’صادق صاحب اب آپ کو اسلام آباد جاکر کوثر صاحب سے ملاقات کرلینی چاہیے‘۔ مصطفی صادق کسی خاص پس وپیش کے بغیر اس پر آمادہ ہوگئے اور اغلباً ان کی کوثر نیازی کے ساتھ اسلام آباد ان کے دفتر میں ملاقات میں حقانی صاحب بھی شریک تھے۔
مولانا کوثر نیازی کو اطلاعات و نشریات کا مشیر اور بعدازاں وزیر بنتے ہی بائیں بازو کے وزراءاور رہنماﺅں کی طرف سے سخت دشواریوں، مخالفتوں اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انھیں بائیں بازو میں اپنے پرانے رفقاءسے بھی رجوع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور دونوں اطراف کی ضروریات نے انھیں ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد کی۔ میں نے 1971ءمیں گوجرانوالہ سے سات روزہ ’خدمت‘ کا ڈیکلریشن حاصل کیا اور 1973ءمیں اس کا نام بدل کر روزنامہ ’تجارت‘ کرنے کے لیے ڈیکلریشن داخل کیا۔ یہ پیپلز پارٹی کا دورِ حکومت تھا۔ نئے اخبارات نکالنا سخت مشکل بنادیا گیا تھا۔ صوبے سے جب تک گورنر اور وزیراعلیٰ سفارش نہ کرے صوبائی حکام مرکزی حکومت کو درخواست بھجواتے ہی نہیں تھے۔ جب میں نے روزنامہ ’تجارت‘ کے ڈیکلریشن کی درخواست دی تو مصطفی صادق کی کوششوں سے صوبائی حکومت کی سفارش کا مرحلہ تو آسانی سے حل ہوگیا مگر مرکزی حکومت میں جانے کے بعد اس معاملہ کا کوئی سراغ نہیں ملتا تھا۔ ہم روزنامہ ’تجارت‘ کی فائل کا سراغ لگانے کی کوشش کرتے تھے اور جواب یہی ملتا کہ اس نام کی کوئی فائل پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اور وزارت اطلاعات و نشریات کی متعلقہ برانچ میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ بہرحال کئی ماہ کی جدوجہد رنگ لائی اور یہ معمہ اس طرح حل ہوا کہ ’تجارت‘ کے نام کی واقعی کوئی فائل نہیں تھی اور یہ چونکہ ’خدمت‘ کا نام ’تجارت‘ رکھنے کا مسئلہ تھا اس لیے ریکارڈ میں ’خدمت‘ کے نام کی فائل تھی۔ فائل کا دستیاب ہونا تھا کہ ناامیدی اور مایوسی، امید اور روشنی کی کرن میں تبدیل ہوگئی۔ ایک روز ہمیں پتا چلا کہ کوثرنیازی آج رات لاہور آنے والے ہیں اور ان کا قیام لاہور ریلوے سٹیشن پر ان کے سیلون میں ہی ہوگا۔ مصطفی صادق اور میں گیارہ بجے شب لاہور ریلوے سٹیشن پر گئے جہاں پلیٹ فارم نمبر2 کی واہگہ جانے والی سائیڈ پر ان کا سیلون لگا ہوا تھا اور سینکڑوں کی تعداد میں پیپلز پارٹی کے کارکن پلیٹ فارم پر اور سیلون کے گرد موجود تھے۔ ہمیں جلد ہی سیلون میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔ کوثر نیازی بڑے خوش گوار موڈ میںتھے، ہمارے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہی میری طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا،’جمیل صاحب! آپ کو مبارک ہو، وزیراعظم نے روزنامہ ’تجارت‘ شائع کرنے کی منظوری دے دی ہے“۔میں نے اس عنایت پر شکر گزاری کا اظہار کیا تو قدرے توقف سے ارشاد فرمانے لگے، ’جمیل صاحب! بس یہ سمجھ لیں ہم نے آپ کو دو مربع زمین دے دی ہے‘۔ میں نے عرض کیا، ’آپ کی مہربانی کا شکریہ اگر ممکن ہو تو آپ ڈیکلریشن واپس لے لیں اور دو کی بجائے ایک مربع اراضی دے دیں‘۔ کوثر نیازی اور مصطفی صادق دونوں نے قہقہہ لگایا اور میری بات ہوا میں اڑ گئی اور ہم روزنامہ ’تجارت‘ کا ڈیکلریشن ملنے کی خوش خبری لے کر شاداں و فرحاں سمن آباد میں اپنے گھر واپس لوٹے۔(جاری)