اتوار، 26 شعبان المعظم، 1444ھ، 19 مارچ 2023ئ

حکومت تمام جماعتوں کو ایک میز پر ملاقات کیلئے ٹائم دے‘ فواد چودھری
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
یہ شعر بالآخر عملی صورت اختیار کرنے لگ گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر دیر کیسی۔ کیوں بلاوجہ کی درد سری میں عوام کو مبتلا کیا ہوا ہے۔ حکومت نے ایک طرف اپوزیشن نے دوسری طرف سے گولہ باری کر کے پورے ملک کو میدان جنگ بنایا ہوا ہے۔ یہ تو اگر پی ایس ایل کے میچ نہ ہو رہے ہوتے تو واقعی دوسرے ممالک بھی سمجھتے کہ پاکستان کے حالات بہت برے ہیں۔ شکر ہے کہ عوام کی بڑی تعداد نے لاہور میں کھیلے میچوں میں بھرپور شرکت کی۔ سٹیڈیم ہر میچ میں بھرا رہا۔ ورنہ لوگ تو سارے لاہور کو زمان پارک سمجھ رہے تھے۔ ابھی تک تناو¿ باقی ہے۔ ایک سال ہونے کو ہے پورا ملک عجیب سیاسی انتشار کا شکار ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی و عدالتوں میں قانونی جنگ جاری ہے‘ ایک لایعنی سلسلہ بنا ہوا ہے جس نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ کوئی کسی کی سنتا ہی نہیں۔ اب خدا خدا کر کے حکومت کی طرف سے بات چیت کی پیش کش پر سیاسی تنا و¿ کم کرنے کی کوشش کے جواب میں اپوزیشن نے بھی مثبت انداز میں بات چیت کرنے کا جو عندیہ دیا ہے۔ خدا کرے یہ بیل منڈھے چڑھے اور حالات پر سکون ہو کر معاشی بہتری اور الیکشن کی طرف بڑھیں۔ دیکھنا ہے اب حکومت اور اپوزیشن کس طرح آگے بڑھتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نے بات چیت کی پیشکش کی اور اپوزیشن نے قبول کر لی ہے۔ فواد چودھری تو کب اور کہاں کس وقت بات چیت کا ٹائم ٹیبل مانگ رہے ہیں۔ تو پھر دیر کیسی دونوں فریق آگے بڑھ کر کام شروع کریں‘ یہ عمل تب ہی آگے بڑھے گا جب شعلہ اگلتی زبانیں خاموش ہوں گی ورنہ آئے روز کوئی نیا کٹا کھلے گا اور ”جتھوں دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی“ والا منظر آئے روز دیکھنے کو ملے گا۔ اسلئے تحمل سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔۔۔
٭....٭....٭
ایم کیو ایم کے 39 یوم تاسیس پر کراچی میں پرجوش تقریبات
کراچی میں ایم کیو ایم کی مرکزی تاسیسی تقریب باغ جناح میں ہوئی لوگوں کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی‘ شرکا میں بچے‘ بوڑھے‘ جوان اور خواتین شامل تھے۔ اس وقت ایم کیو ایم کو دو بڑی خوشیاں ملی ہیں ایک تو یہ کہ اس کے تینوں دھڑے جو خالد مقبول صدیقی‘ فاروق ستار اور مصطفی کمال کی قیادت میں کام کر رہے تھے اب ایک ہو گئے ہیں۔ یہ اتحاد مبارک ہو مومنوں کے لئے۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں ایم کیو ایم کے فنڈز سے جو جائیدادیں خریدی گئی تھیں جن پر متحدہ کے سابق رہنما نے زور زبردستی سے قبضہ جمایا ہوا تھا وہ برطانوی عدالتی فیصلے کے بعد اب ایم کیو ایم پاکستان کو مل گئی ہیں۔ گزشتہ روز یوم تاسیس کی تقریب میں بقول ایم کیو ایم کے رہنماو¿ں کے ایک نئے عزم سے ایک نیا سفر شروع کرنے کا جو بیانیہ آیا ہے خدا کرے وہ ملک و قوم اور کراچی والوں کے لئے خوشیوں کی نوید لائے۔ آگے بڑھنے والے بیتے دنوں کی یادوں میں کھوئے نہیں رہتے۔ اچھے برے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ اب خدا کرے کراچی اور سندھ میں ایک مرتبہ پھر بھائی چارے کو فروغ ملے۔ سب کو ان کے حقوق ملیں‘ کراچی کی معاشی ترقی پورے پاکستان کی معاشی ترقی ہے اور یہ بات حقیقت ہے کہ اگر کراچی کھڑا ہو جائے تو ہمیں واقعی آئی ایم ایف کے در کی گدائی سے بھی نجات مل سکتی ہے۔ یہ غریب پرور شہر ہے‘ اسے پھر سے روشنیوں کا شہر بنا کر ہم ملکی ترقی کی رفتار تیز کر سکتے ہیں۔ میرٹ اور قانون پر عملداری سے یہ کام آسان ہو سکتا ہے۔ یہاں غیر ملکی تاریکین وطن جو غیرقانونی طور پر مقیم ہیں اور جرائم میں ملوث ہیں انہیں نکال کر امن قائم کیا جائے۔ کسی مافیا کی دادا گیری برداشت نہ کی جائے۔ ہم سب چاروں پانچوں بھائی پاکستانی ہیں۔ ”ہم سب کی ہے پہچان‘ ہم سب کا پاکستان“ ہم سب نے اس ملک میں مل جل کر رہنا ہے۔ ایم کیو ایم نے ابتدا میں جس طرح اچھے مثبت سیاسی رویوں کو فروغ دیا۔ اس نئے سفر میں انہی مثبت حب الوطنی کے جذبوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ عام پاکستانی کو ہر میدان میں آگے لانے کی ضرورت ہے۔ کاش ہماری باقی سیاسی جماعتیں بھی اشرافیہ کے چنگل سے نکل کر ایسا ہی کریں۔
٭....٭....٭
سابق امریکی صدر ٹرمپ بھی توشہ خانے کی لپیٹ میں آ گئے
یہ توشہ خانہ کے تحائف تو لگتا ہے کہ آسیب بن کر سابق حکمرانوں کو چمٹ رہے ہیں۔ پاکستان میں تو ان تحائف کی زد میں آ کر کئی شرفا کا وقار بید مجنوں کی طرح لرز رہا ہے۔ وہ اپنے اپنے بچاو¿ کے لئے ہاتھ پاو¿ں مار رہے ہیں مگر ابھی تک بچاو¿ کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ کوئی کہتا ہے میرے تحفے میری مرضی۔ کوئی کہتا ہے ذاتی حیثیت سے ملے ہیں۔ کوئی کہتا ہے یہ ریاست کو نہیں حکمران کو ملتے ہیں۔ مگر علماءنے کہا ہے کہ نہیں جناب یہ کرسی کو ملتے ہیں۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے تحائف وصول کرنے پر جب ایک گورنر کو ہٹایا تو سال بعد پوچھا کہ بتاو¿اب کوئی تحفہ ملتا ہے تو وہ بولے نہیں جناب اب کوئی نہیں دیتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر ملکی تحائف صاحب اقتدار کو اقتدار کی وجہ سے ملتے ہیں ورنہ کوئی پھوٹی کوڑی بھی نہ دے کسی کو۔ اب ہم جیسے ممالک کو چھوڑیں۔ امریکہ جیسے بڑے قانون پسند آدرشوں والے ملک میں دیکھ لیں۔
وہاں کے بژے دبنگ قسم کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ان تحالف کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ ان پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے مبلغ اڑھائی لاکھ ڈالر جس کا نصف سوا لاکھ ڈالر بنتا ہے‘سکہ رائج الوقت مالیت کے تحالف کا ذکر اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔ یعنی انہیں چھپایا ہے۔ اس پر انہیں ایوان کی کمیٹی نے طلب کیا ہے۔ ٹرمپ نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں‘ موصوف کہتے ہیں کہ انہوں نے امریکی قانون کے مطابق یہ تحائف ظاہر نہیں کئے ۔ بعدازاں ظاہر کر دیئے تھے۔ اب دیکھتے ہیں انکی کمیٹی مطمئن ہوتی ہے یا انہیں بھی امریکی عدالتوں میں جتھے بنا کر (جن کا ان کو تجربہ بھی ہے وائٹ ہاﺅس پر حملہ کی شکل میں) جانے کی پریکٹس کرنی پڑے گی۔
٭....٭....٭
مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر پاکستانی پرچم اور آرمی چیف کی تصاویر والے پوسٹر چسپاں
کشمیریوں کو پاکستان سے کتنی محبت ہے اس کا اظہار وہ اکثر کرتے رہتے ہیں۔ ان کے ہر مظاہرے میں ہر جنازے میں پاکستانی پرچم لہرا رہا ہوتا ہے۔ جب کوئی نیا آرمی چیف آتا ہے تو اس کی تصاویر کے ساتھ پاکستانی پرچم والے پوسٹر کشمیر کی سڑکوں پر چسپاں کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ ایک خاموش پیغام ہے کہ وہ کسی خالد بن ولید ‘ طارق بن زیاد‘ محمود غزنوی‘ صلاح الدین ایوبی یا محمد بن قاسم جیسے جرنیل کے انتظار میں ہیں جو فاتحانہ انداز میں کشمیر میں داخل ہو کر ان کو غلامی سے نجات کا مڑدہ سنائے۔ مگر ابھی تک ان کا یہ خواب تشنہ تکمیل ہے۔ اس کے باوجود
سبز دستار سے نبی راضی
پاکستان کے غازی آیو۔۔۔
ترجمہ‘ جن کی سبز دستار سے نبی راضی ہے پاکستان کے وہ غازی آ گئے ہیں۔
کا نغمہ جانفرا کہیں نہ کہیں کسی شکل سنائی دیتا رہتا ہے۔ خدا کرے ان کی یہ آس نہ ٹوٹے اور کوئی مرد میدان سر دھڑ کی بازی لگا کر کشمیر کی آزادی کا یہ خواب پورے کرے۔ دور جدید میں عسکری میدان میں اگرچہ ممکن نہیں تو پھر سیاسی میدان میں ایسی سفارتی یلغار کی جا سکتی ہے کہ بھارتی مظالم دنیا پر آشکار ہوں اور وہ مشرقی تیمور اور دار فر کی طرح یہاں بھی فوری ایکشن لے۔اور کشمیر یوں کو بھی ان کی مرضی کے مطا بق جینے کا حق دیا جائے۔ یہ تو ممکن ہے تو پھر دیر کس لئے۔۔۔۔