
سیّد روح الامین
محترمہ فرخ زہراگیلانی 17ستمبر 1954ئ کو محلہ سادات، شورکوٹ شہر میں سیّد نذر حسین شاہ صاحب کے گھر پیدا ہوئیں۔ ہماری قومی زبان اْردو کا ناچیز پر یہ احسان عظیم ہے جس کی وساطت سے ایسی ایسی عظیم اہلِ علم ہستیوں سے میں متعارف ہوا۔ فرخ زہرا گیلانی ایم۔ اے انگریزی تھیں۔ 2004ئ میں ڈپٹی سیکرٹری ہائر ایجوکیشن پنجاب سول سیکرٹیریٹ میں تعینات تھیں۔ کسی وساطت سے میں کتاب ’’اْردو ہے جس کا نام‘‘ لے کر گیا۔ بہت ہی خوش ہوئیں۔ سادات گھرانے سے منسلک بڑے مناصب پر فائز ہوتے ہوئے مشرقی اقدار کی پابند، باوقار اور خوبصورت شاعرہ بھی تھیں۔ اپنی کتاب ’’کْہر کے اْس پار‘‘ میری نذر کی۔ پھر میری موجودگی میں کء جامعات کے صاحبانِ صدرِ شعبہ کو فون کر کے میرا اور ’’اْردو ہے جس کا نام‘‘ کا تعارف کرایا۔ مجھے کہنے لگیں کہ آپ اِن اداروں میں فوری طور پر کتابیں ارسال کر دیں۔ تقریباً تین چار روز بعد میں مِلنے گیا تو ڈاکٹر انوار احمد صاحب کو فون کیا کہ روح الامین صاحب کی کتاب مِل گئی ہے ’’تاریخِ اَدب اْردو‘‘ کی معلم پروفیسر ڈاکٹر روبینہ ترین نے اپنے طالب علموں کو اپنے زیرِ تدریس نصاب کے خاکے کے ساتھ جو امدادی کتب تجویز کی ہیں اْن میں اس کتاب کو بھی شامل کیا گیا ہے‘‘۔ آج بھی زکریا یونیورسٹی کے ایم۔ اے اْردو کے نصاب میں ناچیزکی آٹھ کتب شامل ہیں اور سب سے پہلے محترمہ ڈاکٹر روبینہ ترین صاحبہ نے اپنی زیرِ نگرانی ایک بچی عشرت لقمان سے میری کتب پر ایم۔ اے کا تحقیقی مقالہ لکھوایا۔بات ہو رہی تھی محترمہ فرخ زہرا گیلانی صاحبہ کی۔ آپ سلطنت اومان میں سکول کی پرنسپل بھی رہیں، ڈپٹی سیکرٹری وویمن ڈویلپمنٹ پنجاب، سیکرٹری بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن فیصل آباد ، ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز فیصل آباد ڈویڑن بھی تعینات رہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اخلاق کی دولت سے مالا مال تھیں۔ نعت خوانی اور کمپیئرنگ میں کئی ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ نعت خوانی، شاعری اور کمپیئرنگ میں خوب نام کمایا۔ ’’کْہرکے اْس پار‘‘ میرے ہاتھ میں ہے۔ ظاہری و باطنی طور پر انتہائی خوبصورت کتاب ہے جس میں احمد ندیم قاسمی، سیّد افسر ساجد، صفدر سلیم سیال اور حسن رضوی کی آرائ درج ہیں۔ ایک دن مجھے ممتاز نقاد ڈاکٹر سلیم اختر صاحب کا خط ملا کہ ’’بجنگ آمد‘‘ میں ایک خاتون صاحبہ کی آپ کے بارے میں نظم چھپی ہے۔ جب میں لاہورگیا تو فوری طورپر ڈاکٹر اختر شمار مدیر اعلیٰ ’’بجنگ آمد‘‘ سے ملنے گیا اور اْن سے ’’بجنگ آمد‘‘ کا تازہ شمارہ مِلا۔ دیکھا تو ’’مرحلہ در مرحلہ اْردو زبان‘‘ کے عنوان سے محترمہ فرخ زہرا گیلانی صاحبہ کی نظم شامل تھی۔ بہت خوشی ہوئی اور پھرپنجاب سول سیکرٹریٹ محترمہ فرخ زہرا گیلانی صاحبہ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے حاضر ہوا۔ نو اشعارپر مشتمل یہ نظم تھی۔ بخوفِ طوالت آخری شعر نذرِ قارئین ہیں :
غالب و میر و انیس و مشفق و روح الامیں
سب کا یہ کہنا عظیم المرتبہ اْردو زباں
مجھ ناچیز کے لیے تو یہ محترمہ فرخ زہرا گیلانی صاحبہ کی طرف سے بہت حوصلہ افزائی تھی۔ ہفتے میں ایک دو بار اْن سے ضرور ملاقات کا شرف حاصل کرتا۔ فرخ زہرا گیلانی نرگسیت کا شکار بالکل بھی نہیں تھیں۔ دوسروں کی صلاحیتوں کا نہ صرف کھلے دل سے اعتراف کرتیں بلکہ مفید مشوروں سے بھی نوازتیں۔ مجھے برملا اعتراف ہے کہ جب میں اْردو زبان کی خدمت کے لیے نکلا تو محترمہ فرخ زہرا گیلانی صاحبہ کا تعاون اور حوصلہ افزائی میرے شاملِ حال رہی۔ بہت ہی باوقار، سلیقہ شعار ،بامروت اور خوبصورت خاتون تھیں۔ میرے لیے وہ بڑ ی بہن کی مانند تھیں مگرکیا کریں موت برحق ہے۔ ہم سب نے لوٹ کر ایک نہ ایک دن اپنے خالق کے پاس ہی جانا ہے۔ اِسی حقیقت کے مصداق محترمہ فرخ زہرا گیلانی مارچ 2021ئ میں ہمیں داغِ مفارقت دے گئیں۔ اللہ کریم جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام نصیب فرمائے۔ آمین! اْنہی کا شعر ہے
گمان میں بھی نہ تھا اْن سے ہم اگر بچھڑے
بدن سے رْوح کا رشتہ ہی ٹْوٹ جائے گا
یہ شعر محترمہ نے اپنی کتاب ’’کْہر کے اْس پار‘‘ کے ’انتساب‘ میں اپنے بچھڑنے والے بھائی ذاکر حسین شفقت اور بہن شمیم گیلانی کے نام لکھا تھا۔