
ہم بطور قوم خراب حالت کی زد میں آچکے ہیں کہ اب اس صورتحال سے نکلنے کے لیے غیر معمولی قومی سوچ کی ضرورت ہے ورنہ مسائل کا پہاڑ اس قدر بڑھ جائے گا کہ کسی ایک جماعت یا کسی ایک لیڈر کے لیے عوامی ریلیف دینا یا انہیں مسائل سے نکالنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس حوالے سے بطور قوم سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاست دان ملک کو اس صورتحال سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو تے تو یقینا یہ ان کی ناکامی ہو گی۔ آئندہ قیادت نوجوانوں کے ہاتھوں میں جانی چاہیے ، قوم کو نوجوانوں سے امیدیں وابستہ کرنے کی ضرورت ہے … یہ درست ہے کہ ارض پاک اس وقت گھمبیر سیاسی' اقتصادی' سماجی مسائل اور دہشت گردی کا شکار ہونے کے باعث اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا جارہا ہے کہ کون سا مسئلہ زیادہ سنگین اور ملک وقوم کے مستقبل کے لئے خطرناک ہے۔ایک جانب متاثرین سیلاب کی بحالی کا مسئلہ ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کی چیلنج درپیش ہے۔2022 میں یہاں دہشت گردی کی376واقعات میںخیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں جانی نقصان میں اضافہ ہوا۔ سی آر ایس ایس کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ان حملوں کی زیادہ ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان، داعش اور بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کی۔دہشت گردی کی وارداتوں میں زیادہ تر پاک افغان سرحدی علاقوں میں دیسی ساختہ بارودی سرنگوں کے دھماکے اور خودکش حملے شامل ہیں۔خیبر پختونخوا میں ہونیوالی وارداتوں میں عام شہریوں' سرکاری وسیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ اس کے مشرق میں بھارت کے ساتھ' شمال مغرب میں افغانستان کے سا تھ طویل سرحد موجود ہے' افغانستان کے علاوہ چین اور ایران کی سرحد بھی ہے۔پاکستان کے لئے جہاں مشرقی سرحد پر شروع دن سے مسائل رہے ہیں وہیں شمال مغرب میں افغانستان کے ساتھ بھی مسائل آج تک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔سوویت یونین اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان سرد جنگ میں افغانستان میدان جنگ بنا تو پاکستان کے لئے مسائل مزید بڑھنے شروع ہوگئے۔ اس معاملے میں پاکستان کی اشرافیہ، رولنگ کلاس کی پالیسیوں اور مفادات کا عمل دخل بہت زیادہ ہے اس مفاد پرستی کا خمیازہ آج قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے!!
پاکستان کی مشرقی سرحد تو بھارت جیسے کینہ پرور دشمن کے معاندانہ عزائم کی وجہ سے روز اول سے غیر محفوظ ہے جس کی وجہ سے ہماری مسلح افواج کو اس طرف ہمیشہ چوکس اور چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ بھارتی حکومت ہمیشہ سے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیوں کے لئے استعمال کرتی چلی آرہی ہے سی پیک جو پاکستان کی اقتصادی خوشحالی کے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے کو ناکام بنانے کے لئے بھارتی خفیہ ایجنسی را نے بھارتی وزیر اعظم کے زیر سایہ ایک اسپیشل ڈیسک قائم کر رکھا ہے جو مسلسل پاکستان خصوصاً بلوچستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہے۔پاکستان وسط ایشیا کا دروازہ ہے تو دوسری طرف وسط ایشیا اور چین کے لئے مشرق وسطیٰ سے لے کر افریقی ممالک تک رسائی کا ذریعہ بھی ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری( سی پیک) نے پاکستان کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے لیکن افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہ پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت پاکستان کے بار بار مطالبے کے باوجود ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔یہی نہیں بلکہ سرحد پار سے افغان شہریوں کی بلا اجازت پاکستان آمد کو روکنے اور دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لئے افواج پاکستان نے پاک افغان سرحد پر باڑ نصب کرنے کا جو کام شروع کر رکھا ہے سابق افغان حکومت کی طرح موجودہ طالبان حکومت بھی اس کی مخالف ہے۔ افعان سرحدی فورسز کی جانب سے باڑ کی تنصیب کے کام کو روکنے یا اس میں خلل ڈالنے کے لئے اشتعال انگیز کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ملک کو دہشت گردی کے لعنت سے نجات دلانے کے لئے سیکورٹی فورسز اگر اپنی ذمہ داریاں بخوبی پوری کر رہی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ سویلین انتظامیہ پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے جب تک ملک میں موثر نظام حکومت نہیں ہوگا ہر شعبہ فعال کردار ادا نہیں کرے گا۔ اس وقت تک دہشت گردی سے مکمل چھٹکارہ ممکن نہیں۔دہشت گردی کے سدباب کے لئے ہمیں فوری' درمیانی اور طویل المدتی پالیسی تشکیل دے کر اس پر سنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا
ملک کی اقتصادی ترقی کے لئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے جس ملک میں آئین میں طے شدہ حدود وقیود کی پاسداری نہ کی جائے اس میں سیاسی عدم استحکام انتشار اور انارکی میں تبدیل ہوکر معیشت کے ساتھ ساتھ قومی وحدت کو بھی لے ڈوبتا ہے۔پاکستان کو درپیش حالات کے تناظر میںپاک فوج کے سربراہ جنر ل سید عاصم منیر کا معیشت اور دہشت گردی کے درپیش چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے عزم کا اعادہ خوش آئند ہے