
میجر ریاض عالم کے ہمراہ اسلام آباد میں حسین چودھری کی وفات پر ان کے لواحقین سے تعزیت کرنے کے بعد جب میری اپنے دفتر واپسی ہوئی تو عارف کے علاوہ سارا سٹاف چھٹی کر چکا تھا۔ عارف نے بتایا کہ دو دفعہ نیب آفس سے آپ کے لیے کسی کرنل صاحب کا فون آیا تھا۔ جب کرنل صاحب کے نام ، عہدے اور ان کے فون نمبر کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ میں نے تقریباً دو گھنٹے دفتری معاملات نپٹاتے ہوئے کرنل صاحب کے سہ بارہ فون آنے کا انتظار کیا آخر کار بوریت کے عالم میں گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ رات کا کھانا کھا کر حسبِ معمول بستر پر دراز ہو گیا۔ سوتے میں آنکھ کھلی تو حسین چودھری کی ہارٹ اٹیک سے واقع ہونے والی اچانک موت سے ایک بار پھر میری آنکھوں میں بجلی کوند گئی۔ حسین چودھری کا پورا نام چودھری محمد حسین تھا۔ ان کے والد چودھری خوشی محمد کا شمار ہمارے علاقے کے معدودے چند سیاسی، سماجی، کاروباری، صاحبِ حیثیت اور بااثر لوگوں کی فہرست میں ہوتا تھا۔ ہمارا اور ان کا گاو¿ں ساتھ ساتھ واقع تھے۔ آفس مینجمنٹ گروپ سے اپنی سروس کا آغاز کرنے والے چودھری محمد حسین نے ڈائریکٹر جنرل اینٹی نارکوٹکس کنٹرول بورڈ اور ایڈیشنل سیکرٹری وزارتِ داخلہ جیسے کلیدی عہدوں پر کام کیا اور بطور حسین چودھری افسرشاہی اور سماجی حلقوں میں شہرت پائی۔
آبائی جائیداد بیچ کر اسلام آباد کے پوش ایریا میں گھر اور ترلائی میں فارم ہاو¿س خریدا۔ پتا نہیں کسی کی شکایت یا سازش پر وہ نیب کے شکنجے میں آ پھنسے اور ان کو دل کا عارضہ لاحق ہو گیا۔ سائیکل سواری اور دیگر جسمانی مشقوں کی وجہ سے وہ بہت دبلے پتلے سے دِکھتے تھے۔ نیب نے حسبِ معمول ان کو ان کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی جانچ پڑتال کے لیے سوالنامہ بھی بھیجا۔ اخبارات میں ان کے بارے میں تواتر سے خبریں چھپنا شروع ہو گئیں۔ شدید ترین ڈپریشن میں وہ جان لیوا ہارٹ اٹیک کی نذر ہو گئے۔ جب ان کی رہائش گاہ پر تعزیت کا اجتماع اختتام پذیر ہوا تو ہم خیال لوگ ٹولیوں کی شکل میں بٹ کر نیب کے خوف اور ان کی موت میں تعلق ڈھونڈتے اور اپنے اپنے انداز میں چہ میگوئیاں کرتے ہوئے ان کے گھر سے باہر نکل رہے تھے۔رفتہ رفتہ جب دھیان حسین چودھری کی موت کے دکھ سے کرنل صاحب کے دو دفعہ آنے والے فون کی طرف گیا تو میرے اندر بزدلی اور منفی سوچ کے جراثیم بیدار ہو کر مجھے نیب کے خوف سے ڈرانے لگے۔ وہ فون آنے کے معاملے کو دفتری امور کی بجائے میری ذات کی طرف موڑ رہے تھے۔ استقامت اور مثبت سوچ کے جرثوموں نے مجھے دلاسہ دینے کی کوشش کی۔ میرے ماضی کی پوری فلم میری آنکھوں کے سامنے چلا کر مجھے مطمئن کرنے کی سعی کی کہ تم نے کبھی غیر قانونی اور غلط کام نہیں کیا تو نیب میں تمہارے خلاف کوئی شکایت کیونکر آ سکتی ہے مگر منفی قوتوں کے جراثیم میرے اندر مخمصے اور اندیشے پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ بار بار انگڑائی لیتے ہوئے میں حیرانی و پریشانی کے عالم میں دونوں قوتوں کی جرح سن رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ مثبت جراثیم آہستہ آہستہ پسپائی اور منفی تیزی سے غلبہ حاصل کرتے جا رہے تھے۔ اب میرا ذہن مکمل طور پر خوف کے جال میں پھنس چکا تھا۔
میں سوچ رہا تھا کہ خوف انسانی جسم کی ایک مکمل اور زبردست قسم کی ایکسرسائز کا پرتو ہے۔ یہ ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سے شروع ہوتا ہے، دماغ میں مقیم تمام چیزوں کو آناً فاناً بے دخل کر کے تن تنہا اس کا مختارِ کل بن جاتا ہے، سر کے بال (اگر ہوں) سرکنڈوں کی طرح کھڑے ہو جاتے ہیں، زبان رضاکارانہ طور پر خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ آنکھیں ہر چیز کو ڈرے ڈرے انداز میں دیکھنا شروع کر دیتی ہیں، دل کی دھڑکن اور سانسوں میں تیزی اور بے ترتیبی آ جاتی ہے، چہرہ سہما سہما سا لگتا ہے، رنگت سرسوں کے پھولوں سے مشابہت اختیار کر لیتی ہے، معدہ فقط آب آشنا ہو کر رہ جاتا ہے، ہاتھوں کی انگلیوں میں نظر نہ آنے والی کپکپاہٹ شروع ہو جاتی ہے، چلتے وقت پاو¿ں دو دو من وزنی محسوس ہونے لگتے ہیں، کان سناٹے اور شور شرابے سے یکساں بے نیاز ہو جاتے ہیں، احساسِ محبت و نفرت مہمل و بے معنی ہو جاتا ہے اور متاثرہ شخص آس پاس کے حالات سے قطعی طور پر بیگانگی اختیار کر لیتا ہے۔ اِس کیفیت کی تب تک سمجھ نہیں آسکتی جب تک انسان خود اِس طرح کی صورتحال سے دوچار نہ ہوا ہو۔
صبح دفتر پہنچا تو رات بھر کی بے چینی اور بے سکونی میرے چہرے پر واضح طور پر پڑھی جا رہی تھی۔ اتفاق سے میجر ریاض عالم کسی کام کے سلسلے میں میرے دفتر آن دھمکے۔ چہرہ شناسی پر عبور رکھنے والے میجر ریاض عالم نے معنی خیز انداز میں میری خیریت دریافت کی تو میں نے لگی لپٹی کے بغیر انھیں اپنے خوف نما خدشے سے آگاہ کیا۔ ان کے کورس میٹ بریگیڈیئر شامی (پورا نام یاد نہیں) نیب راولپنڈی کے دفتر میں پوسٹڈ تھے۔ انھوں نے ان سے فون پر بات کرکے میری پوزیشن کے بارے میں پوچھا۔ بریگیڈیئر شامی نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اپنے دوست کو دلاسہ دیں کہ ان کا کوئی ایشو نیب کے دفتر میں زیرِ تفتیش نہیں ہے۔ تاہم انھوں نے میجر ریاض عالم کو گپ شپ کے لیے شام کے وقت اپنے ہاں چائے کی دعوت دے ڈالی جو میجر ریاض عالم کی طرف سے فوراً قبول کر لی گئی۔ شام کو مقررہ وقت پر ہم بریگیڈیئر شامی کی رہائش گاہ پر موجود تھے۔ میرے بارے میں انھوں نے کہا، ’میں ہی راولپنڈی ضلع کے نیب سے متعلقہ امور کا انچارج ہوں۔ میں نے اپنے سٹاف سے بھی پتا کروایا ہے، آپ کا کوئی مسئلہ ہمارے دفتر میں زیرِ غور نہیں ہے۔‘ یہ سنتے ہی خوف کی بچی کچھی علامتیں بھی ایک ایک کر کے ہوا ہوتی چلی گئیں مگر کرنل صاحب کے دو فون آنے والی بات کسی طور پر بھی ذہن سے محو ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔