ممبران قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڈ کو بروز اتوار 8مارچ 2020 اس وقت اسلام آباد ایئر پورٹ پر روک لیاگیا وہ جب کابل روانگی کیلئے ہوائی جہاز میں سوار ہوچکے تھے ایف آئی اے کے حکام نے انہیں بتایا کہ ان کا نام ای سی ایل میں ہونے کی وجہ سے وہ ملک سے باہر نہیں جاسکتے ۔پختون تحفظ مومنٹ کے یہ دونوں رہنما افغان حکومت کی خصوصی دعوت پر اشرف غنی کی بطور صدر تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے کابل جانا چاہتے تھے۔ ان دونوں کو گذشتہ برس جنوبی وزیرستان میں آرمی چیک پوسٹ پر حملے میںملوث ہونے کی بنیاد پر گرفتار کرلیاگیا تھا اس کے علاوہ بھی پی ٹی ایم کی یہ دونوں لیڈر پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈے اور پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہے ۔تاہم مئی 2019میں پشاور ہائی کورٹ نے دونوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیدیا ۔ایف آئی اے کے روکنے پر دونوں حضرات نے سوشل میڈیا پروپیگنڈے کا ایک طوفان برپا کردیا۔حالانکہ یہ دونوں آگاہ تھے کہ ان کا نام ای سی ایل میں شامل ہے وہ جانتے تھے کہ انہوں نے ملک سے باہر جانے کیلئے وزارت داخلہ سے رجوع نہیں کیا ۔لہذا انہیں ہوائی اڈے پر روک لیا جائیگا وہ چاہتے بھی یہی تھے کہ انہیں روکا جائے تاکہ اسے بنیاد بناکر وہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں پر مزید بہتان تراشی کرسکیں۔پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کیلئے جس قدر قربانیاں دیں امریکہ وہ افغانستان طالبان کو امن معاہدے تک پہنچنے کیلئے جتنی تگ ودو کی، ان کوششوں کو یہ دونوں صرف پاکستان دشمنوں کی خواہش پر بے وقعت کرنا چاہتے تھے۔ افغان حکومت نے بھی وزیر اعظم یا پاکستان کے صدر کو دعوت نامہ بھجوانے کی بجائے ان دونوں کو دعوت دے کر مستقبل میں پاکستان کے ساتھ مراسم کے حوالے سے اپنی نیت کا اظہار کردیا ۔اس کے باوجود وزیراعظم پاکستان کی خصوصی اجازت سے یہ کابل پہنچے تو افغان نیشنل آرمی (ANA) افغانستان کی خفیہ ایجنسی National Directorate of security(NDS) نے نہ صرف ان دونوں کو خصوصی پروٹوکول سے نوازا بلکہ کابل کے صدارتی محل تک پہنچنے کیلئے انہیں نیشنل آرمی کے ہیلی کاپٹر پر لے جایاگیا ،جس پر افغانستان میں پہلی بار محسن داوڑ،علی وزیر کو افغان حکومت کی طرف سے یے گئے پروٹوکول پر اعتراض سامنے آیا۔خاص کر تاجک لیڈروں نے دونوں کو اشرف غنی کا ایجنٹ قراردیتے ہوئے پاکستانی حکام سے سوال کیا کہ انہیں کابل جانے کی اجازت کیوں دی گئی ۔محسن داوڑنے بھی اپنے ٹوئیٹ میں افغان صدر اشرف غنی کا شکریہ ادا کیا اور لکھا کہ ان کے تاخیر سے پہنچنے پر اشرف غنی نے حلف برداری کو روکے رکھا ۔افغان صدر اشرف غنی کی تقریب حلف برداری کا دوسرا انتہائی اہم پہلوں تقریب کہ قریب ہی کہیں ہونے والے دھماکے تھے ۔جس کے نتیجے میں صدر کا اسٹیج تک لرزتا رہا اور شدید فائرنگ کی آوازیں بھی سنائی دیتی رہیں ۔اس پورے ڈرامے کی خوبصورتی یہ تھی کہ فائرنگ، دھماکوں کی آواز سن کر تقریب میں موجود بہت سے مردوخواتین نے جان بچانے کیلئے عمارت کے اندر دوڑ لگادی لیکن اشرف غنی کے سکیورٹی گارڈز اور خود اشرف غنی کے چہرے پر نہ کوئی پریشانی تھی نہ کوئی جھلک رہا تھا بلکہ اشرف غنی نے فائرنگ کی گونج میں اپنی تقریر جاری رکھی۔اشرف غنی اور اس کا حفاظتی دستہ بے خوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سے ظاہر کررہے تھے کہ انہیں حملہ آوروں کاکوئی خوف نہیں ،اسی دوران اشرف غنی نے ڈرامے میں مزید رنگ بھرنے کیلئے واسکٹ نما کوٹ کھول کر اپنا سینہ حاضرین کو دکھایا اور بتایا کہ دیکھ لو وہ کتنا نڈر اور بہادر ہے اس نے کوئی حفاظتی بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہن رکھی ۔حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں سکیورٹی پر تعینات دستے مقتدر واہم شخصیت کو فوری طور پر حصار میں لیکر محفوظ جگہ پر منتقل کرتے ہیں، ویسے بھی افغانستان میں اس طرح کے حملوں میں ہونیوالی تباہی اور جانی نقصانات کی ایک طویل تاریخ ہے ۔علاوہ ازیں تاحال نہ تو وہ مقام میڈیا کے سامنے لایاگیا ہے جہاںفائرنگ ہوتی رہی نہ ہی اس جگہ کی نشاند ہی کی گئی جہاں راکٹ لانچر گرنیڈ آکر گرتے اور پھٹتے رہے، البتہ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ایک ایسے حملے کی ذمہ داری جس میں نہ کوئی جانی نقصان ہوا نہ کوئی عمارت تباہ ہوئی نہ کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع ملی ۔
یہ وہی داعش ہے جس نے چند روز قبل 6مارچ کو کابل میں حزب وحدت کے رہنما عبدالعلی کی 25ویں برسی کے حوالے سے منعقد کی گئی تقریب پر حملہ کرکے 32افراد کو جاں بحق اور 80سے زیادہ کو زخمی کردیا تھا ،طالبان نے فوری طور پر اس حملے کی مذمت کی اور کہا کہ وہ اس حملے میں ملوث نہیں ہیں ۔بعد ازاں جب داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی تو افغانستان کے بعض مبصرین نے شمالی اتحاد کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کوحملہ آوروں کا ہدف قرار دیا۔ تین روز بعد عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کے مقابلے میں الگ سے تقریب منعقد کرکے بطور افغان صدر حلف اٹھالیا ۔زلمے خلیل زاد اس عرصہ میں بھر پور کوششیں کرتے رہے کہ عبداللہ عبداللہ بطور صدر الگ سے حلف اٹھانے کی بجائے ماضی کی طرح چیف ایگزیکٹو کے طور پر صدر کے مساوی اختیارات کے ساتھ حکومت میں شریک ہوجائے ۔اشرف غنی اور وہ دونوں ایک ہی تقریب میں حلف اٹھائیں لیکن عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کو صدر کے طور پر قبول کرنے سے صاف کردیا اس نے زلمے خلیل زاد کے ساتھ ملاقاتوں میں اشرف غنی سے متعلق جس طرح کی رائے کا اظہار کیا افغان میڈیا میں وہ سب تفصیل کے ساتھ شائع ہوچکاہے ۔افغان میڈیا کے مطابق عبداللہ عبداللہ کے حامیوں کا خیال ہے کہ عبداللہ عبداللہ 6مارچ کو عبدالعلی کی برسی پر کرائی گئی فائرنگ کا ذمہ دار اشرف غنی کو سمجھتا ہے ۔اگر یہی حقیقت ہے تو یہ کام داعش سے صرف ''این ڈی ایس'' اور ''را ''لے سکتی ہے ۔بلاشبہ عبداللہ عبداللہ پر ہونیوالا حملہ انتہائی خوفناک تھا غالباً اس لیے اس نے امریکہ کو صاف انکار کرتے ہوئے افغان صدر کے طور پر حلف اٹھانے کا فیصلہ کیا۔2014میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی جب عبدالہ عبداللہ نے حامد کرزائی کو افغان صدر کے طور پر قبول کرنے سے انکار کردیا۔وہ بضد رہا کہ اسے ہی صدر بنایا جائے اس وقت امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری نے کابل پہنچ کر صورتحال کوسنبھالا اور افغان حکومت میں عبداللہ عبداللہ کیلئے ''چیف ایگزیکٹو''کے نام سے ایک نیا عہدہ تشکیل دے کر اسے حامد کرزائی کے ساتھ شریک اقتدار قرار دے دیا گیا تھا لیکن موجودہ صورتحال میں افغان انتظامیہ کے علاوہ وہاں کے عوام بھی پریشان ہیں کہ ملک کا سربراہ کون ہے ۔شمالی افغانستان کے وہ علاقے جہاں شمالی اتحاد کے حامیوں کی اکثریت ہے وہاں عبداللہ عبداللہ نے احکامات جاری کرنے شروع کردیے ہیں ۔ جس میں تین صوبوں میں اپنے گورنروں کی تعیناتی بھی شامل ہے ۔''الجزیرہ''ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق افغان عوام نے اب اپنی امیدیں طالبان سے وابسطہ کر لی ہیں وہ اپنے مستقبل کیلئے طالبان کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔جنہوں نے 19برسوں کے طویل لڑائی میں دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت امریکہ کو مجبور کردیا کہ وہ انہیں فغانیوں کے حقیقی نمائندہ کے طور پر تسلیم اور افغانستان میں قیام امن کے لیے ان کے ساتھ معاہدہ کریں۔اس رپورٹ کے مطابق افغان عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ اشرف غنی کا جانا ٹھہر چکا ہے اگرایسا ہی ہے تو پھر پاکستان سے محسن داوڑ و علی وزیر کیلئے افغان صدر اشرف غنی کا خصوصی دعوت نامہ اور ان دونوں کیلئے افغانستان میں خصوصی پروٹوکول بلاوجہ نہیں۔ان حالات میں پی ٹی ایم والوں پر نہ صرف نظر رکھنا بلکہ ان کی ملک کے خلاف سرگرمیوں کا محاسبہ بھی ضروری ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024