کرتارپور کاریڈور کے کھلنے سے مشرقی پنجاب کی سیاست میں بھونچال آ چکا ہے۔ شرومنی اکالی دل اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا گراف بری حد تک نیچے گر چکا ہے۔ پرکاش سنگھ بادل ایک دفعہ پھر میدان میں آ چکے ہیں حالانکہ سکھ سیاست اور سکھ مذہب کو سب سے زیادہ نقصان بادل فیملی نے پہنچایا بلکہ پنجاب میں منشیات اور دوسری غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں کی ذمہ داری پرکاش سنگھ پر آتی ہے۔ آزادی کی تمنا رکھنے والی سکھ قوم کو مرکزی قوتوں کا غلام بنانے میں پرکاش سنگھ کا بہت بڑا کردار ہے۔ کرتارپور کاریڈورکے متعلق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیراعظم عمران خان اور نوجوت سنگھ سدھو کی کاوشوں کو پنجاب اور سکھ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔مشرقی پنجاب میں امرتسر جیسے مقدس شہر پر فوجی حملہ اور سری دربار صاحب کی بے حرمتی کانگرسی حکومت کے دور میں ہوئی مگر بی جے پی کی نفرت انگیز، شر انگیز اور متشدد پالیسیوں نے پنجابیوں کو اتنا فکرمند کیا کہ وہ اپنے وجود کو وائم رکھنے کے لئے سوچنے پر مجبور ہو گئے۔پنجابی زبان کو تباہ کرنے کی سازش ہو رہی ہے سکھ کاشتکاروں کو تباہ حال کیا جا رہا ہے فصلوں میں استعمال ہونے والے خطرناک کیمیکلز بھی جان بوجھ کراستعمال کئے جا رہے ہیں جن سے پنجاب میں کئی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ نوجوانوں کو مقدمات ،یں پھنسانا، قتل کرنا اور ڈرانا دھمکانا عام سی بات ہے سکھ نوجوان اس قدر خوف زدہ ہیں کہ اگر سچ بولا تو اسے پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر اس کی زندگی برباد کی جا سکتی ہے۔ گو مشرقی پنجاب میں انقلابی جذبہ سے مزین سکھ اپنے دھرمک فلسفہ کے تحت ظلم اور نا انصافی کے خلاف آوازضرور اتھاتے ہیں کشمیری مسلمانوں اور بھارتی شہریت کے کالے قانون کی آڑ میں اقلیتوں خاص کر مسلمانون کو ظلم وستم اور تعصب کا نشانہ بنانے پر سکھ ببانگ دہل مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔دہلی میں مظلوم مسلمانوں کو سکھوں نے پناہ دی۔ بیرون ملک سکھ ہی ہیں جنہوں نے بی جے پی کے ظلم اور لا قانونیت کے خلاف مسلمانوں، عیسائیوں اور اچھوتوں کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔ یہ سکھ ازم کا اصول ہے کہ سکھہمیشہ مظلوم کا ساتھ دےگا۔ کرتارپور کاریڈورنے مشرقی پنجاب کی سیاست میں دو تبدیلیاں کیں، ایک تو کانگرس کو مضبوط کیا جس نے پچھلے الیکشن میں چار سے آگے بڑھ کر آٹھ سیٹیں دیں۔ دوسرا دو قومی نظریہ یعنی سکھ اور برہمن راج کی جنگ کو تیز تر کر دیا ہے۔ بی جے پی آر ایس ایس کے ذریعے برہمن راج کو پورے جنوبی ایشیا میں نافذ کرنے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی حکمت عمی پر پوری طاقت سے عمل پیرا ہیں۔ دوسری جانب سکھ اپنے مذہبی اور سیاسی ورثہ راج کرے گا خالصہ کے تحفظ کے لئے خود کو منظم کرنے کی سوچ ہیں۔ مقابلہ میں غیرمنظم سکھ قوم کو انتہائی منظم اور طاقتور آر ایس ایس کا سامنا ہے۔ سکھوں کے پاس نہ تو متفقہ لیڈرشپ ہے نہ حکومت اور نہ ہی کوئی بیرونی طاقنوں کی امداد۔ جبکہ آر ایس ایس کے پاس حکومت بھی ہے پیسہ بھی ہے، متعصب عوام کا ہجوم بھی ہے، مودی جیسی ظالم اور جارحانہ اقدام میں تامل نہ کرنے والی لیدرشپ بھی ہے اور ساتھ ساتھ بیرون ملک اثرورسوخ بھی۔ سکھوں کے پاس مذہبی جذبہ ہے اور ظلم کے خلاف لڑنے کی ہمت اور حوصلہ ہے، سب سے بڑھ کر سکھوں کو اس حقیقت کا علم ہو چکا ہے کہ ۃندو برہمن خطرناک حد تک سکھوں کا دشمن ہے اور پنجاب سے ان کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے مگر ان کو ابھی تک انہی پریشانیوں کا سامنا ہے جو 1947 سے پہلے سکھوں کو درپیش تھیں۔۔۔ نہ اتحاد نہ متفقہ لیڈرشپ مگر اس کے باوجود ان کو مارشل قوم اور ظلم سے لڑنے کا مذہبی درس باوقار انداز میں جینے کا ڈھنگ سکھا چکا ہے۔ اسی لیئے انہوں نے کابھی شکست تسلیم نہیں کی۔ آر ایس ایس برہمن راج کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہیں مگر پنجاب میں برہمن ہندو صرف 12 فی صد ہیں جبکہ انڈیا میں 20 فی صد ہیں باقی نچلے درجے کے ہندو ہیں۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ اچھوت ہندو ذلالت کی زندگی گزارنے کے باوجود برہمن ہندو لیڈرشپ کا ساتھ دے رہے ہیں۔
حقیقت ہے کہ بہت سے اچھوت، شودر، دلت وغیرہ بی جے پی کی مخالفت کر رہے ہیں مگر ان کو ڈاکٹر امبیدکر کی مصلحت پسندانہ پالیسی سے نکلنا ہوگا۔ ورنہ پونا پیکٹ کے بعد ہاتھ آنے والا موقع ضائع ہو جائے گا۔ ان تمام قوتوں کے پاس کوئی متفقہ لیڈرشپ نہیں جو موجودہ حالات کو د برہمن ہندو لیڈرشپ کے پلڑے میں ڈال دیتا ہے۔ د برہمن ہندو کے اجنڈے کی انگلستان اور چین پہلے ہی مخالفت کر چکے ہیں۔ آر ایس ایس پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک کو د برہمن امپیریلزم کے تحت چلانا چاہتی ہے اور پورے خطے میں منو سمرتی یعنی د برہمن ہندو قوانین کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔ آر ایس ایس کی اس پالیسی کا مرکزی نکتہ جنگ ہے، جنگ مسلط کرہ، قبضہ کرہ، منو سمرتی نافذ کرو آر ایس ایس کا منصوبہ اور تریقہ کار ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس اسی فلسفہ اور پلان پر عمل پیرا ہیں مگر اس فلسفہ کی تکمیل میں دو بہت بڑی روکاوٹیں حائل ہیں: پاکستان اور سکھ …بھارتی پنجاب میں بلکہ پورے بھارت میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی موجودگی میں ہر بھارتی حملہ میں انڈیا کو شکست ہوگی۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کو سب سے زیادہ خوف جنرل باجوہ کا ہے اس لیئے وہ باگھم بھاگ کر امریکہ کی جھولی میں بیٹھنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی فوج کا مقابلہ امریکی امداد کے بغیر نا ممکن ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان اس منصوبہ پر عمل کر رہا ہے کہ کرتارپور صاحب کو ویٹی کن سٹی کا درجا دے دیا جائے گا۔ کرتارپورے کو چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور سے منسلک کر کے پوری دنیا کے سکھوں کو ایک مرکزی نکتہ پر اکٹھا کر لے گا۔ اس طرح سکھ قوم کی لیڈرشپ پاکستان کے ہاتھ میں چلی جائے گی پھر کشمیر اور پنجاب پر پاکستان کے قبضہ کے بعد جنرل باجوہ کے منصوبہ کے تحت انڈیا ٹوٹ جائے گا۔ یہ انتہائی دلچسپ بات ہے کہ انڈیا میں یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی نفسیاتی طور پر نہرو اور پٹیل کی طرح کشمیر اور پنجاب سے دسبردار ہونے کے لیے سوچ چکے ہیں ۔ د برہمن ہندو خوف سے لرز رہا ہے اور اس پاگل پن میں وہ ہر غیر اخلاقی اقدام اتھائے جا رہا ہے۔ مگر فیصلہ کن حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کو مکمل یقین ہے کہ پاکستان سے جنگ کہ صورت میں امریکہ اور سیکھ بھارت کا ساتھ نہیں دیں گے یہی وہ نکتہ ہے جس نے آر ایس ایس کو اپنی اوقات میں رکھا ہوا ہے ورنہ اس دہشت گرد تنظیم سے کابھی خیر کی امید نہیں راکھی جا ساکتی۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اس منصوبہ پر سنجیدگی سے کام کر رہا ہے۔ بھارتی حکومت جن محاذوں پر کام کر رہے ہیں وہ یہ ہیں:
۱۔ امرتسر شہر کو ویٹی کن سٹی کا درجہ دینے کا سوچا جا رہا ہے۔ اور اس سلسلہ میں نیریندر مودی مختلف سکھ لیڈروں سے بھارت اور یو کے میں ملاقات کر چکے ہیں۔ معاملہ اس نکتہ پر رکا ہوا ہے کہ ویٹی کن سٹی درجہ کا مطلب ہے کہ انڈیا امرتسر میں کسی قسم کی مداخلت کی مداخلت سے ہمیشہ کے لئے دستبردار ہو جاے۔ اور پنجاب کی سٹیٹ بھارتی وفاق کے کنٹرول سے نکل جائے۔ اس منصوبہ کے مختلف آپشنز پر غور جاری ہے۔2۔ افغان دہشت گردوں سے مل کر کرتارپور صاحب کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ اس گھناونی سازش کا ایک ثبوت اسی فروری میں مل چکا ہے کہ افغان اور را کے دہشت گردوں کو پاکستانی ایجنسیوں نے پکر کر بھارتی مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ اور کرتارپور کو محفوظ بنا کر بتا دیا کہ کوئی مائی کا لال اس مقدس مشن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ 3 سکھوں کو 25سال تک حکومت دی جائے گی اور اس دوران میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔4۔ بی جے پی حکومت دوسرے ممالک سے رابطہ کر رہی ہے کہ سکھوں کو زیادہ سے زیادہ ویزے دئے جائیں تا کہ سکھ نوجوان بھارت سے نکل جائیں۔ افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے سکھ حریت پسندی کی تحریک ناکام ہو جائے گی۔ اور اس طرح بی جے پی کا پنجاب میں اثر و رسوخ بھی بھڑہ جئے گا۔5۔ بی جے پی حکومت نے بغربی ممالک میں زیادہ سے زیادہ سکھ سٹڈی سنٹرز، پنجاب سنٹرز، انڈین سنٹرز کھولنے کے لئے بھاری رقم مختص کر دی ہے تاکہ مغربی ممالک کی حمائت حاصل کی جائے۔ یہ لونگ ٹرم پلاننگ ہے۔ یہ سٹڈی سنٹرز نہ صرف سفارت خانوں کا کام دیں گے بلکہ وہان سے فارغ التحصیل بھارتی اور مغربی نوجوان مستقبل میں حکومتی پالیسی میں بھارت کے لئے دوستانہ رویہ رکھیں گے۔6۔ مغربی ممالک اور بھارت میں گوردواروں کے پردھانوں کو پیسہ دے کر اور ایمبیسی کے ذریعے مزید اختیارات دے کر سکھوں کو کنٹرول کیا جائے۔ان تمام سازشوں کا سکھوں کو علم ہے مگر ان کے پاس ایسی لیڈرشپ نہیں ہے کہ ان کو متحد کر کے بہترین مستقبل کی جانب لے جائے۔ وہ آج بھی1947جیسی صورت حال کا شکار ہپیں مگر مشرقی پنجاب کے سکھ د برہمن ہندو کے ظلم و تشدد سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہہ پاکستان خاص کر پنجابیوں کو دوست اور بھائی سمجھتے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38