گاردین شپ مقدمات، ہزاروں بچے والدین کے پراپیگنڈا سے ذہنی مریض بن گئے
لاہور(رپورٹ۔ ایف ایچ شہزاد) گارڈین شپ کے مقدمات میں فریق بننے والے ہزاروں بچے اپنے ہی والدین کے پروپیگنڈے سے ذہنی مریض بن گئے۔باہمی جھگڑوں کا شکار بچے گارڈین کورٹس میں والدین کے ساتھ ملاقات کیلئے آتے ہیں مگر فریقین کی طرف سے کان بھرنے کے باعث ان کی مایوسی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مقدمے بازی سے متاثرہ بچوں کی ذہنی بحالی کا کوئی پروگرام شروع نہیں کیا گیا۔ لاہور میں شام کی گارڈین کورٹ نے کام شروع کر دیا ہے مگر اب بھی زیادہ مقدمات کی سماعت ریگولر اوقات اور روایتی ماحول میں ہوتی ہے۔گارڈین کورٹس میں اعلی عدلیہ کی ہدایت اور چند این جی اوز کی طرف سے فراہم کی جانے والی سہولتوں کے باوجود بچے مقدمے بازی کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔ جس کا اندازہ ان کے معصوم چہروں پر موجود کرب، چڑچڑے پن اور مایوسی سے کیا جا سکتا ہے۔ عدالتی اہلکاروں کے مطابق زیادہ بچے اس امید کے ساتھ گارڈین کورٹس میں آتے ہیں کہ شایدعدالتیں، مصالحتی نظام اور پرو فیشنل وکالت ان کے قدرتی رشتوں کے از سر نو ملاپ کا بہانہ بن جائیں مگر جھوٹی انا کا شکار ان کے والدین بچوںکی معصوم خواہشات کو جدید کھلونوں، نئے کپڑوں اور کھانے پینے کی اشیاء جیسے مصنوعی تحائف میں دبانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ بچے عدالتوں کے درو دیوار کو حسرت بھری نگاہوں سے گھورتے ہوئے مایوس لوٹ جاتے ہیں۔ وکلائ، سول سوسائٹی اور سائلین نے ان بچوں کے مستقبل کو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے مصالحتی نظام کی مضبوطی، گھریلو ماحول میں گارڈین عدالتوں کے قیام اور والدین کی مقدمات سے متعلق خصوصی تربیت جیسے اہم اقدام اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق لاہور کی چھ گارڈین کورٹس اور شام کی ایک خصوصی گارڈین عدالت میںتین ہزار سے زائد مقدمات زیر التواء ہیں۔ جبکہ ہرسال اوسطاً اس سے زیادہ نئے مقدمات دائر کئے جاتے ہیں۔ عدالتیں ہفتے کے روز تیس سے چالیس والدین کو بچوں سے ملاقات کی اجازت دیتی ہیں۔ملاقات کا وقت ایک سے دو گھنٹے ہوتا ہے۔ بیلف کی زیر نگرانی ملاقاتوں میں 90فیصد والدین اپنے بچوں کو دوسرے فریق کے خلاف متنفر کرتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق گارڈین کورٹ میں آنے والے 80فیصد سے زائد بچے کسی بھی طرح کی گفتگو، کھلونوں اور تحائف میں دلچسپی نہیں لیتے۔خصوصاً دس سال سے کم عمر کی بچیاں ایک خوف کی کیفیت میں مبتلا دکھائی دیتی ہیں۔ملاقاتیں کرانے والے ایک بیلف کے مطابق زیادہ تر والدین بچوں کو کھلونے ، نئے کپڑے اور تحائف دے کر ان کی برین واشنگ کرتے ہیں۔ تاکہ وہ دوسرے فریق سے متنفر ہو جائے یوں عدالتوں کی طرف سے والدین کی بچوں سے ملاقاتیں کروانے کا بنیادی مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ عدالتوں کا مطمع نظر ہے کہ بچوں کو ان کے والدین یاد رہیں۔ ایک عدالتی اہلکار کے مطابق کچھ عرصہ قبل ایک بچے پر اس کی والدہ نے احاطہ عدالت میں ہی تشدد کرتے ہوئے کہا کہ اگر دوبارہ پاپا کے پاس گئے تو تیرا گلا کاٹ دوں گی۔کئی والد اپنے بچوں کے سامنے ان کی والدہ کی کردار کشی کرتے ہیں۔ایک جج کا کہنا تھا کہ جو مرد اور خواتین گھر میں ایک دوسرے کی معمولی بات برداشت نہیں کرتے عدالتوں میں آ کر ایک دوسرے کا گریبان تک پکڑ لیتے ہیں۔وکلاء کا کہنا ہے کہ گارڈین عدالتوں کے کمپلیکس رہائشی علاقوں میں ہونے چاہئیں جہاں بچوں کو اس بات کا احساس ہی نہ ہو کہ وہ عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں۔ مصالحتی نظام انتہائی مضبوط ہونا چاہئے تاکہ زیادہ تنازعات کا فیصلہ پنچائت کی سطح پر ہی کر لیا جائے اور بچے بالواسطہ مقدمے بازی سے بچے رہیں۔