اُصیرم کا انوکھااسلام
اُصیرم عمرو بن ثابت وقش کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس سے تھا،اس قبیلہ کے دوسرے تمام افراد حضرت سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کی تحریک پر حلقہء بگوش اسلام ہوگئے تھے،لیکن یہ اپنی ضد پر اڑا رہا ۔جس دن مسلمان احد کے لیے نکلے یہ اس سے قبل شہر سے باہرگیا ہواتھا، اسی صبح واپس آیا ، تو پوچھا سعد کہاں ہیں؟اسے مطلع کیاگیا کہ میدان احد میں ہیں،پھر پوچھا میرے بھتیجے کہاں ہیں؟بتایا گیا، احد میں ہیں ،اورقبیلہ کے باقی افراد ؟جوا ب ملا کہ سبھی احد میں ہیں۔وہی سعید لمحہ تھا ، کہ اللہ کریم نے اس کے دل کو اسلام کے لیے کشادہ کردیا، اس کی آنکھوں سے غفلت اورتعصب کی پٹی اترگئی اس نے اسی وقت خودہی کلمہ شہادت پڑھ کر ، اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا، تلوار اٹھائی ،نیزہ پکڑا ، زرہ پہنی ،خود اپنے سرپر سجایا اورپوری طرح مسلح ہوکر ، سر پٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا میدان احد میں پہنچ گیااور مجاہدین کے ساتھ جاکر صف آراء ہوگیا۔ انھوں نے اسے دیکھا تو کہا یہاں سے چلے جائو تمہیں یہاں ٹھہرنے کی اجازت نہیں ہے اس نے کہا میرے بھائیو! برہمی اختیار نہ کرو، میںنے بھی یہ دعوت حق قبول کرلی ہے اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے آگیا ہوں ۔ جنگ شروع ہوئی تو اس نے جرأت وشجاعت کے بے مثال جوہر دکھائے یہاں تک کہ زخموں سے نڈھال ہوکر زمین پر گرپڑا، اختتام جنگ پر بنوعبدالاشہل کے چند افراد اپنے مقتولوں کی تلاش میں آئے تو انہوںنے اُصیرم کو شدید زخمی حالت میں آخری دموں پر دیکھا ،کہنے لگے بخدا یہ تواصیرم ہے،یہ یہاں کیسے آیا ،یہ تو منکر اسلام تھا۔انہوںنے اس سے استفسار کیا ،تمہیں اپنی قومی غیرت یہاں کھینچ لائی ہے کہ تمہارے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوگئی ہے۔ اس نے لڑکھڑاتی زبان سے کہا ، محض اسلام کی محبت میں یہاں آیا ہوں، مجھے اللہ اوراس کے رسول پر ایمان کی توفیق مل گئی اور یہی جذبہ مجھے کشاں کشاں یہاں کھینچ لایا، میری حالت زار تمہارے سامنے ہے میں مرجائوں تومیرے سارے اموال واملاک جناب رسالت مآب میں پیش کردینا ۔حضور جس طرح چاہیں انھیں خرچ فرمالیں۔
اتنے میں سعد بن معاذ بھی وہاں آگئے انھوںنے ان کے بھائی سے کہا کہ ان سے پوچھوکہ کیا تم تمہیں قومی حمیت یہاں لے آئی ہے یا اللہ اوراس رسول کی ناموس کے لیے غضبناک ہوکر آئے ہو،اس نے کہا میں تو اللہ اوراس کے رسول کی عزت وناموس پر قربان ہونے کے لیے آیا ہوں ،تھوڑی ہی دیر بعد وہ وصال الہٰی سے شادکام ہوگئے ،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سارے واقعے کی اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا ’’اُصیر م اہل جنت میں سے ہے‘‘۔
ایک دن حضرت ابوہریرہ نے لوگوں سے پوچھا ، ایسے جنتی کا نام بتائو جس نے ایک نماز بھی نہیں پڑھی پھر بھی جنت میں ہے ،لوگوںنے کہا، آپ ہی ارشادفرمائیے ،آپ نے فرمایا وہ بنو عبدالاشہل سے تعلق رکھنے والا ’’اُصیر م ‘‘ہے۔