منگل ‘ 11 ؍ رجب المرجب ‘ 1440ھ‘ 19؍ مارچ 2019ء
نیب کے زیر تفتیش ایک اور ملزم دم توڑ گیا
خدا جانے یہ نیب والوںکو بندے مارنے کا لائسنس کس نے دیدیا ہے۔ اتنے کم وقت میں اتنی بڑی تعداد میں بندے مارنے کا ریکارڈ تو پولیس کے پاس بھی نہ ہو گا۔ نیب کا کام تفتیش کرنا ہے کرے سو بار کرے مگر یہ بندے پھڑکانے والا رویہ اب عوام کو چبھنے لگا ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ ملک لوٹنے والوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے ان سے وصولیاں کی جائیں نہ کہ ان کو راہی ملک عدم کر دیا جائے۔ سب جانتے ہیں کہ ملکی خزانے لوٹنے والے بڑے بڑے مہان گرو آج بھی نیب کے سامنے چیلنج بن کر کھڑے ہیں۔ اب ان کو ڈرانے کے لیے عام چھوٹے موٹے ملزموں کوکھڑکانا کہاں کا انصاف ہے۔ ایک ہفتے سے بھی کم عرصہ میں بلکہ چند دنوں میں یہ نیب کے زیر تفتیش تیسرا فرد ہے جو جان کی بازی ہار گیا۔ شاید نیب کے اس مردم کش رویے کو دیکھ کر پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی قانونی ٹیم نے بلاول اور آصف زرداری کومشورہ دیا ہے کہ وہ نیب کے سامنے پیش نہ ہوں۔ ورنہ نیب نے تو انہیں کرپشن کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کرنا تھا۔ اب وہ تو کسی صورت نیب کے ہاں جانے پر تیارنہ ہوں گے۔ نیب والوں نے ان دونوں کے لیے دروغ برگردن رادی 100 سوالات کی فہرست تیار کر لی ہے۔ یہ تو ایک انار سو بیمار کے الٹ تھیوری ہے۔ بھلا دو آدمی 100 سوالات کے جواب کیسے دیں ۔ ہمارے ہاں تو 5 سوالات کا پرچہ طلبا سے حل نہیں ہوتا اور آدھے سے زیادہ بچے فیل ہوجاتے ہیں یہاں تو پورے کے پورے 100 سوال حل کرنے ہیں۔ اب بندہ ایسی فہرست دیکھ کر مرے یا خودکشی نہ کرے تو کیا کرے۔
٭٭٭٭٭
موٹر وے پر 600 سی سی کی ہیوی بائیکس چلانے کی اجازت
دعاتو یہ ہے کہ یہ خبرغلط ہو۔ ابھی تو لوگ 125 سی سی کی بائیکس کے ہاتھوں آئے روز ہسپتالوں کی سیر کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کی شرح میںاضافہ کی ایک وجہ موٹر سائیکلوں کی رف ڈرائیونگ ہی ہے۔ موٹر وے اگر ابھی تک کچھ سکون میں ہے تو وہ بھی قابل فخر نہیں وہاں بھی حادثے ہوتے ہیں جو نہیں ہونے چاہئیں۔ مگر اب اگر یہ بمبار قسم کی موٹر سائیکلوںکو موٹروے پر چلانے کی اجازت مل گئی تو پھر وہاں کیا کچھ ہو گا۔ اس کا ہم اندازہ نہیں کر سکتے۔ یہ بڑی موٹر سائیکلیں دولت مند لوگوں کے چونچلے ہیں ورنہ ہماری سڑکوں پر تو 70 اور 125 سی سی کی تباہ کاریاں ہی سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ 600 سی سی کا تو تذکرہ ہی ہم نہیںکر سکتے۔ اب تو ہمارے گورنرسندھ بھی ایسی ہیوی بائیکس کے شوقین ہیں۔ گورنر ہائوس میں اب اکثر ایسی بائیکس والے شوخیاں مارتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ روز کرکٹ کے ممتاز کمنٹیٹر جونٹی روڈ ز بھی ہیوی بائیک پر گورنر ہائوس پہنچے۔ جہاں گورنر سندھ بھی اپنی ہیوی بائیک لے کر ان کے ساتھ چکر پر نکلے۔ یہاں تک تو معاملہ درست ہے۔ ایسے وی آئی پی لوگوں کے لیے سکواڈ پہلے ہی سڑکیں خالی کرا دیتے ہیں تاکہ ان کے شغل میلے میں فرق نہ پڑے۔ مگر موٹروے پر ہیوی بائیکس چلانے والے تو پاگل ہو جائیں گے اور اپنے دل کے ارمان نکالتے نکالتے کہیں لوگوں کی جان نہ نکالنے لگیں۔ ہم تو ابھی تک ون ویلنگ پر قابو نہیںپا سکے اور اب یہ نئی مصیبت گلے ڈالنے کا سوچ رہے ہیں۔ موٹر وے پر ان بائیکوں کے آنے سے تو انگریزی فلموں کا سماں پید ہو جائے گا اور آئے روز نت نئی قسم کی ریس اور کرتب دیکھنے کو ملیں گے۔ جن کا انجام بھی فلم کے آخر میں قابل دید ہوتا ہے۔
انتخابی شکست کے خوف نے مودی کو چوکیدار بننے پر مجبور کر دیا
بھارتی وزیراعظم اب چوکیدار بنیں یا چور اس سے بھارتی ووٹروں کا دل جیتنے میں انہیں نا کامی ہی ہوگی۔ پہلے بھی وہ قاتل اور قصاب کا تمغہ سجا کر الیکشن لڑتے تھے۔ اب ان کاموں میں مہارت حاصل کرنے کے بعد وہ خود کو چوکیدار کہلا کر عوام کو بیوقوف بنانا چاہتے ہیں کیونکہ عالمی سطح پر قاتل اور قصاب کی جودرگت بنتی ہے مودی کی سیاست اس کی متحمل نہیں ہو سکتی حالانکہ ابھی تک وہ ہی کام کر رہے ہیں۔ اب رافیل طیاروں کی خریداری میں کرپشن پراپوزیشن جماعتیں مودی کو چور چور کہہ رہی ہیں تو مودی نے اس اعزاز سے جان چھڑانے کے لیے چوکیدار کی پخ لگانے میں عافیت محسوس کی ہے۔ مگر اربوں روپے کے گھپلے کہاں چھپ سکتے ہیں۔ اپوزیشن والے کہہ رہے ہیںکہ جب چوکیدار ہی چوروں سے مل گیا ہوتو پھر گھر کی رکھوالی کون کرے گا ۔ یہ تو دودھ پر بلی کو بٹھانے والی بات ہے۔ یہ تو الیکشن کمشن کی پابندی ہے ورنہ مودی اپنا نام ’’سپاہی نریندر مودی‘‘ لکھتا۔ چونکہ اب فوج کے نام پر سیاست بازی بند ہے اس لیے مودی جی نے چوکیدار کا لقب چن لیا ہے۔ لیکن بھارتی اپوزیشن چور سپاہی کا کھیل سمجھ چکی ہے۔ اب ووٹروں کو باور کرانا ان کا کام ہے کہ چوکیدار اب چوروں سے مل چکا ہے اس لیے جاگتے رہنا مودی پر نہ رہنا ۔اس طرح قاتل قصاب کے بعد چور کا تمغہ ان کے سینے پر آویزاں ہونے والا ہے۔
٭٭٭٭
لاہوری بھکاریوں کے نرغے میں پھنس گئے
کہتے ہیں رجب شعبان اور رمضان میں رحمت الٰہی جوش میں ہوتی ہے۔ رجب کو تو خاص طور پر خدا کامہینہ اور شعبان کوسرکار دوعالم کا جبکہ رمضان کو عوام الناس کی مغفرت کا مہینہ کہا جاتا ہے۔ ان 3 ماہ میں اجر و ثواب بڑھ جاتا ہے۔ لوگوں میں صدقات خیرات کے علاوہ بھی غریب غربا کی مدد کا جذبہ بڑھ جاتا ہے۔ اب اس کارخیر کا فائدہ اٹھانے کے لیے حقیقی غربا کی بجائے دو نمبر فقیر اور محتاج طرح طرح کے بھیس بنا کر شہروں اور دیہات کارخ کرتے ہیں اور لوگوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ ان بھکاریوں کی تعداد دیکھ کر تو یوں لگتا ہے گویا ان تینوںماہ میں سارا پاکستان گداگرستان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کسی سڑک پر چوک پر جائیں جگہ جگہ مورچہ بند ہوکر یہ بھکاری طرح طرح کے حلیہ میں آپ پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اپنی جعلی معذوری اور غربت کا ایسا دکھ بھرا تذکرہ کرتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب فراڈ ہے آپ کچھ نہ کچھ دے کر ہی جان بچا پاتے ہیں۔ لاہور کا تو برا حال ہے۔ باقی شہروں کا بھی یہی ہو گا۔ رجب تا رمضان شہری ان بھکاریوں کے نرغے میں ہوں گے۔ اب معلوم نہیں یہ انسداد گداگری کے محکمے اور ادارہ کس مرض کی دوا ہیں۔ یہ برس ہا برس سے کون سے کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں۔ بس صرف رسمی کارروائیوں سے اپنی زندگی کا ثبوت دیناان کا کام رہ گیا ہے۔ اس وقت لاہور اور دیگر شہر بھکاریوں کے قبضے میں ہیں جو ڈاکوئوں کی طرح معصوم شہریوں کو لوٹ رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے گداگروں کے خلاف ایکشن لینے کا جو اعلان کیاتھا اس کا کیا بنا؟ معلوم نہیں۔ شاید وہ اپنے علاقہ کی جان ملتان کی پہچان گور‘ گدا و گرما کی وجہ سے ان تینوں کے معاملے میں ہاتھ نرم رکھنا چاہتے ہیں۔ ورنہ گداگروں کیخلاف بآسانی ایکشن لیا جا سکتا ہے ۔ عوام کوان سے بچایا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭