یہ خوفناک منظر دیکھ کر توجان ہی نکل گئی کہ سفید فام آسٹریلین دہشت گرد نیوزی لینڈ کے خوبصورت شہر کرائسٹ چرچ کی جامع مسجد النور میں جمعہ کی نماز پڑھنے آنے والے نمازیوںکو اندھا دھند اور بے رحمانہ گولیوں سے بھون رہا ہے۔ شہداء اپنے رب کی جو کہ عیسائیوں (اور یہودیوں) کا بھی رب ہے عبادت کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ قاتل نے اس غیر انسانی اور دہشت گردانہ کام کے لیے مہینوں منصوبہ بندی کی۔ اس کا مقصد اپنے سیاسی اور سماجی ایجنڈے کی تکمیل یعنی مغرب کو ’’حملہ آوروں‘‘ سے پاک کرنا تھا۔ وہ مغرب میں آنے والے مسلمانوں کو ’’حملہ آور‘‘ قراردیتا ہے۔ کسی دینی عبادت گاہ پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی مساجد، گرجا گھروں اورکنیسائوں پر حملوں کے 25 واقعات ہو چکے ہیں جن میں بیسوں بے گناہ عبادت گزار مارے گئے۔
مجھے چند مغربی ٹی وی چینلز دیکھنے کاموقعہ ملا‘ میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی کہ حملہ آور قاتل کو دہشت گردی کی بجائے شوٹر( گولیاں چلانے والا یعنی بندوق دھاری ) کہا جا رہا تھا۔ عالمی برادری کو ضرور جان لینا چاہئے کہ دہشت گردی کو بندوق دھاری اور دہشت گرد کے خانوں میں بانٹنے سے اسلام اور مغرب میں خلا یا فاصلے مزید بڑھ جائیں گے۔ مغرب کی اس تقسیم کو انتہا پسند اپنے مذموم مقاصد کی تائید میں استعمال کریں گے ۔ سیاستدانوں، میڈیا کے دانشوروں اور رائے عامہ سازوں کو کسی بھی مذہب بارے گفتگو کرنے کے لیے سخت احتیاط برتنا ہو گی کیونکہ یہ بڑا نازک مسئلہ ہے اور ان کے منہ سے نکلے الفاظ دوررس اثرات کے حامل ہوسکتے ہیں۔ ہمیں ہرسطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کی تبلیغ کرنا چاہئے۔ آئیے جو جیسا ہے اسے ویسا کہیں اور (کرائسٹ چرچ مسجد پر) حملہ صاف صاف دہشت گردی ہے۔ (اور اس کا ارتکاب کرنے والے کودہشت گرد ہی کہا جائے خواہ وہ کسی مذہب کا پیروکار ہو) میری حیرانی کی وجہ مختلف عالمی لیڈروں کے بیانات ہیں کہ ان لیڈروں نے اپنے اپنے طور دہشت گردی کی مختلف تعبیریں اختیار کر رکھی ہیں۔ اگر بدقسمتی سے کوئی مسلمان ایسی مذموم حرکت کا مرتکب ہو، تو اسے دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ مقصود یہ جتلانا ہوتا ہے کہ مسلمان ہوتے ہی مجسم شر ہیں اور غیر مسلم ایسا کام کرے تو اُس کے لیے مختلف اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جیسا کہ برینٹن ٹیرانٹ کے لیے بندوق دھاری یا زیادہ سے زیادہ قاتل کہاجا رہا ہے۔اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ کسی ایک ’’مسلم دہشت گرد‘‘ کے مجنونانہ فعل کی آڑ میں پرامن مسلم امہ کو گالیاں سننا پڑتی ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ بے گناہ انسانوں کا قتل ایک خاص مقصد کے لیے کیا جاتا ہے اور اس کامرتکب کوئی بھی ہو اس کی یکساں مذمت کی جانی چاہئے۔
یہ جاننے کے لیے کہ ’’شوٹر‘‘ اور ’’ٹیررسٹ ‘‘ کے درمیان کیا فرق ہے۔ میں نے انگریزی زبان کی مستند ترین لغت ’’آکسفورڈ ڈکشنری ‘‘ سے رجوع کیا: ڈکشنری نے بتایا ، شوٹر وہ ہے جو مستقلاً یا کبھی کبھی گن استعمال کرتاہے اور ’’دہشت گرد‘‘ وہ ہے جو سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر تشدد سے اور خوف ہراس پھیلاکر خصوصاً شہریوںکو خوف زدہ کرتاہے۔میڈیا کیمطابق 28 سالہ آسٹریلین برینٹن ٹرانٹ نے ان حملوں کے لیے مہینوں پلاننگ کی، اور اس نے انٹرنیٹ پر اپنے منشور کو پوسٹ کیا اس نے مبینہ طور پر اس کی کاپی معصوم نمازیوں کے قتل عام کا آغاز کرنے سے ایک منٹ پہلے وزیر اعظم (نیوزی لینڈ) ہائوس بھی بھیجی۔ منشور، تارکین وطن اورمسلمانوںکی مخالفت اور نفرت سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردی کی راہ اختیار کی۔ انصاف کیجئے ایسا شخص محض ’’شوٹر‘‘ کی تعریف میں آتا ہے یا ’’دہشت گرد‘‘ کی تعریف میں ۔ لہٰذا بعض مغربی لیڈروں اور ذرائع ابلاغ کو اس واقعے اور سنگین جرم کے مرتکب کے بارے میں اپنی اپروچ کی اصلاح کر لینی چاہئے۔
ستم ظریفی ملاحظہ مسلمانوں کو دہشت گرد کہا جا رہاہے۔ لیکن کرائسٹ چرچ کے شہدا میںایک 71 سالہ افغان مہاجر دائود محمد بھی شامل ہے جو اپنے ملک میں دہشت گردی سے بچ نکلا لیکن وطن سے ہزاروں میل دور نیوزی لینڈمیں (سفید فام) دہشت گرد کی زد سے نہ بچ سکا۔ وہ پہلا شکار تھا۔ وہ بے چارا دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے اپنے ’’عیسائی بھائی‘‘ کا استقبال کرنے کے لیے ہاتھ پھیلائے اور کہا ’’ہیلو برادر‘‘ لیکن اگلے ہی لمحے سفاک دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بن گیا۔
آئیے ہم دنیا میں بڑھتی ہوئی انتہائی دائیںبازو کی نسل پرستی اورمجنونانہ نسلی برتری پر مبنی دہشت گردی کی طرف سے آنکھیں نہ بند کریں۔ یہ القاعدہ اور داعش اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کی طرح عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ آج عدالت میں پیش ہونیوالا دہشتگرد نسلی برتری والی دہشت گردی کا ہی روپ ہے۔ وقت کاتقاضا ہے کہ پوری عالمی برادری بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے متحد ہو جائے۔ ورنہ انسانی تہذیب باہمی تصادم کا شکار ہو کر نابود ہو جائے گی۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کے بین المذاہب ہم آہنگی کے آبزرورز کا کہنا ہے کہ ہمیں اس مقصد کے لیے ’’خدا کی محبت ، پڑوسی سے محبت ‘‘ کے مشترکہ تصور کو بنیاد بنانا ہو گا۔ یہ پیغام بلاامتیاز و تفریق ہے۔ خالصتاً رضا کارانہ ہے اور سب کے لیے ہے۔ میری رائے ہے کہ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک اس اصطلاح کو اپنے اپنے ممالک کے قوانین کا حصہ بنا لیںجس طرح کہ دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے۔
باوجودیکہ سفید فام نسلی برتری کے زیر اثر دہشت گردی، دنیا بھرمیںتیزی سے پھیل رہی ہے لیکن امریکی میڈیا اور سیاسی اشرافیہ ابھی بھی اپنا زیادہ وقت صرف ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا ڈھول پیٹنے پر ضائع کر رہی ہے جس کا فائدہ تو کوئی نہیں ہو رہاالبتہ پہلے سے موجود اسلاموفوبیا کی جلتی آگ پر تیل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔ سفید فام نسلی برتری کی حامل دہشت گردی نام نہاد اسلامی دہشت گردی سے کہیںزیادہ عام ہے، لیکن نسلی برتری کے جنون میںمبتلا سفید فام دہشت گرد بچوں کوبھی معاف نہیںکرتے، وہ سفید فام قوم پرستی کے نام پر سکولوں کودہشت گردی کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
تاریخی طور پر دہشت گردی کی ابتدا مسلمانوں سے نہیں ہوئی، یہ اصطلاح سب سے پہلے انقلاب فرانس کے دوران وضع ہوئی۔ حالانکہ دہشت گردی کا سراغ تو پہلی صدی عیسوی میںبھی ملتا ہے اس وقت توروئے زمین پر مسلمانوں کا وجود ہی نہیں تھا، (مسلمان تو ساتویں صدی عیسوی میں وجودمیں آئے) لیکن ان حقائق کے باوجود ، دنیا میںکہیں بھی دہشت گردی کی واردات ہو اس کا الزام بلا سوچے سمجھے اوربدون تحقیق مسلمانوںکے سر تھونپ دیاجاتاہے۔ امریکی فوجیں عراق میں مسلمانوںکاقتل عام کررہی ہیں۔ میانمار میں بدھ مسلمانوں کو شہید کر کے اجتماعی قبروں میںدبا رہے ہیں۔ اسرائیل کے یہودیوںکا بے گناہ فلسطینی مسلمانوںکوقتل کرنا، روزانہ کامشغلہ ہے۔ ہم فلپائن میںشہید کئے جا رہے ہیں، بھارت نے پہلے تقسیم کے وقت دل کھول کرمسلمانوںکا خون بہایا، پھر گجرات میں پھر جموں و کشمیر اور اب ایک انتہا پسند سفید فام نسلی برتری کے جذبات میںمغلوب آسٹریلین نے نیوزی لینڈ میں پچاس بے گناہ نمازیوں کو بھون ڈالا۔ اس کی اندھا دھند فائرنگ سے درجنوںزخمی ہوئے، ستم ظریفی نہیںتو اور کیا ہے، کہ اب بھی ہم (مسلمانوں) پر ہی دہشت گردی کا لیبل لگایا جا رہاہے۔
حال ہی میں تخلیق کی جانے والی اصطلاح ’’سفید برتری آئیڈیالوجی‘‘ نہایت مہلک نظریہ ہے۔ اس کی بنیاد یہ نظریہ ہے کہ کاکیشین (قفقاز یا کوہ قاف کا علاقہ) نسل کودوسری نسلوں اور بالخصوص سیاہ فاموں پر برتری حاصل ہے۔ اس نظریے یا آئیڈیالوجی کا فوراً اگلا دبا دینا چاہئے، پیشتر اس کے کہ یہ دنیاکو تباہ کرے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کے سامنے گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں، اسلام نے اچھے اعمال (تقوے) کو انسانیت کے لیے وجۂ شرف قراردیا ہے۔ حکمرانی کے اچھے نمونوں کی بنیاد مساوات انسانی پر ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ زبردستی خود ہی دوسروں سے برتر بن بیٹھے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اگر نسلی برتری کی آئیڈیالوجی کو حدود و قیود کا پابند نہ کیا گیا تو مستقبل میں نام نہاد مسلم دہشت گردوں اور نسلی برتری کے جنوں میں مبتلا سفید فاموں میں سنگین تصادم ہو سکتے ہیں۔ یہ جھڑپیں، تہذیبوںکے تصادم اور متعلقہ ممالک کے درمیان جنگوںمیںتبدیل ہو سکتی ہیں۔ اقوام متحدہ کو اس مسئلے پر ہنگامی بنیادوں پر حرکت میں آنا ہو گا۔ امریکہ کی خانہ جنگی کی بنیاد بھی کالے گورے کی تفریق ہی تو تھی۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ مسلمانوں کی بے پناہ خونریزی اور زبردست قربانیوںکے باوجود ہم مغرب کی نظر میں ابھی بھی دہشت گرد ہیں۔ کیا ہم آسان ہدف ہیں، یا ہم بحیثیت اُمہ اپنے آپ کو اور اپنی آنے والی نسلوںکو تحفظ دینے میںناکام رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ خون مسلم کی ارزانی رائگاں نہیں جائے گی بلکہ بین الاقوامی برادری کو نفرت اور مذہب پر مبنی پالیسیاںترک کرنے پر مجبور کر دے گا اور بین المذاہب ہم آہنگی کی بنیاد پر وسیع تر بین الاقوامی برادری کا قیام عمل میںآئے گا۔ آخرمیںتمام مسلمان برادری سے اپیل ہے کہ وہ سانحہ نیوزی لینڈ پر (انتقامی) ردعمل دینے کی بجائے اپنے اپنے ملکوں میںمسیحی بہن بھائیوں اور ان کے گرجا گھروںکی حفاظت کریں۔ مسلمانوںاور مسیحیوں دونوں کو کسی تیسرے فریق کی تباہ کن سازش سے ہوشیار رہنا چاہئے جو ہم دونوںاور انسانیت کا دشمن ہے۔
(ترجمہ و تہذیب : حفیظ الرحمن قریشی)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38