یہ آنے والے زمانوں کا منصوبہ ہے جس میں ہمارے مستقبل کی کامیابیاں اور کامرانیاں پوشیدہ ہیں ۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے شاندار اقدام کرتے ہوئے مستقبل بینی اور دورس اقدام کی بنیاد رکھی ہے۔ دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت یا ’آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘ ایک انقلاب برپا کررہی ہے۔ پاکستان میں صدر مملکت کا اس منصوبے کی بنیاد رکھنا دراصل نئے پاکستان کی ابتداء ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے رجحان کو متعارف کرانے کی طرف انقلابی پیشرفت تصور کی جاسکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت نے دنیا بھر میں صنعت ومعیشت اور طب وزراعت سے لے کر انفرادی زندگی تک ہر شعبے کو جدت سے ہمکنار کردیا ہے۔ فاصلوں کو سمیٹنے سے لیکر اجتماعی اور کاروباری پیچیدگیوں کو سلجھانے اور انفرادی نظم وضبط اور صلاحیت کو کئی درجے بڑھا دیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ کئی نئے چیلنج بھی پیدا کردئیے ہیں۔ یہ ایک سال کا پروگرام ہے جو بالکل ابتدائی سطح کی معلومات سیکھنے والوں کیلئے ہے۔ اس پروگرام کے چار سہہ ماہی( کوارٹرز) حصے بنائے گئے ہیں۔ پہلی سہہ ماہی میں مصنوعی ذہانت کی بنیاد، دوسری سہہ ماہی میں ڈیٹا سائنس کا تعارف اور گہرامطالعہ شروع کرایا جاتا ہے۔ تیسری سہہ ماہی مصنوعی ذہانت کے عملی استعمال اور چوتھی سہہ ماہی میں ایک ماہر کے طورپر اسکے استعمال کے عملی مظاہرہ کا موقع دیا جاتا ہے۔
صدر مملکت کی سرپرستی میں پروگرام کے سیکریٹری جنرل قاضی رحمت حیات ہیں جبکہ انتظامی کمیٹی میں چانسلر اقرایونیورسٹی حنید لاکھانی، ضیاء اللہ خان ، سیلانی ویلفئیر ٹرسٹ کے صدر یوسف لاکھانی، سلیمان مہدی شامل ہیں۔اس انقلاب آفرین پروگرام کا آغاز کراچی سے کیاگیا ہے جسے بعد ازاں اسلام آباد، پشاور، لاہور اور کوئٹہ میں بھی شروع کیاجارہا ہے۔ یہ مستقبل کا منصوبہ ہے اور جیسے ہمارے ہاں عمومی رجحان ہے کہ شروع میں اس معاملے میں کم ہی توجہ دی جاتی ہے لیکن جب موقع آجاتا ہے تو پھر اسکی اہمیت واضح ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے مضمون کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہم دیگر دنیا کے مقابلے میں ابھی اس شعبے میں اتنے آگے نہیں لیکن بہرحال یہ پروگرام صحیح سمت میں ایک درست قدم ہے کیونکہ مصنوعی ذہانت کے استعمال سے دنیا میں جو انقلاب برپا ہورہا ہے اسکے بہت سے ایسے خطرناک نتائج ہیں جس پر ابھی سے پیش بندی نہ ہوئی تو کئی طرح کے سنگین مسائل پیدا ہوں گے جن میں سے ایک بڑے پیمانے پر بیروزگاری ہے۔
ذہانت قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے جو حضرت انسان کو دیگر مخلوقات پر فضیلت بخشتا ہے۔ پہیے کی ایجاد نے انقلاب کی بنیاد رکھی تھی اور پھر مشینوں کی ایسی جدت طرازی ہوئی کہ آج ہم اور ہماری زندگی مشینوں میں گھری ہے بلکہ یہ کہاجائے کہ اگر مشینیں موجودہ انسانی زندگی سے منہا ہوجائیں تو یکلخت ہم بنجر وبیاباں میدان میں پہنچ جائیں۔ نظر کمزور ہونے پر ہم دوبارہ دیکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو اس میں مشینوں کا ساتھ ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ گھڑی، گاڑی، جہاز، کھانے پکانے کی اشیاء ، تعلیم سمیت ہر طرف مشینیں ہی مشینیں ہیں۔ خدانخواستہ مرتے ہوئے انسان کی مدد کیلئے ’مصنوعی سانس‘ کی مشین یعنی ’وینٹیلیٹر‘ ایک معجزے سے کم نہیں۔ ڈائیلیسز کی صورت گردے کی تکلیف میں مبتلا انسان کی تکلیف رفع ہوتی ہے تو انسان حیرت زدہ ہوکر اس ایجاد کو تکتا رہ جاتا ہے۔ اندھیرے میں روشنی پھیلاتا بلب ہمیں لالٹین کی رومانوی یاد دلاتا ہے، دئیے کی جگہ آج ایک بٹن ہماری اندھیری زندگی کو پل بھر میں روشن کرکے آسانی فراہم کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جدید وائرلیس اور نجانے کیسے کیسے پیچیدہ امور سے گزر کر ٹیکنالوجی کی معراج بننے والی مشینیں آج اپنی حیات کے ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہیں۔ اب مشین کو انسانی ذہانت سے ہمکنار کرکے انکی افادیت اور کارکردگی کو نئے معنی دئیے جائیے رہے ہیں۔ سٹیفن ہاکنگز جیسا معذور انسان اگر ہمارے معاشرے میں ہوتا تو نجانے کیا ہوتا لیکن اس نے علم کی بنیاد پر کیسا انقلاب برپا کیا کہ ہاتھ پاؤں سلامت ہونے کے باوجود سینکڑوں، ہزاروں افراد کو وہ اپنی ذہانت اور قابلیت سے کہیں پیچھے چھوڑ گیا۔ ا کے گال کا محض ایک ’پٹھے‘ کی پھڑپھڑاہٹ مشین کے ذریعے اسکی زبان بن گئی۔ وہ لیکچر دیتا اوراپنا مافی الضمیر بیان کرتا۔ اسکی معذوری اسکے راستے کی دیوار نہ بن سکی۔
ایک عرصے سے سائنسدان اس تگ ودو میں ہیں کہ کسی طرح مشین اور انسان کا میلاپ ہوجائے۔ یعنی مشین انسانی ذہانت کی نعمت پالے اور گوشت پوست کا انسان مشین والی قوت، تیزی اور چستی کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر والی اعدادوشمار کو بروئے کار لانے کی قوت بھی حاصل کرلے۔ یہ تجربات ہوتے ہوتے اب مصنوعی ذہانت کی نئی تعریف پاچکے ہیں۔ اب آپ کو بتانے کے تکلف سے نجات مل رہی ہے اور یہی وہ مشینی یا علمی انقلاب کہلارہا ہے کہ آپ گاڑی میں بیٹھ جائیں اور اسے حکم دیں کہ فلاں جگہ آپ کو لیجائے تو بغیر کسی انسانی مشقت کے مشین یعنی کار اپنی مصنوعی ذہانت سے آپ کو منزل مقصود پر لیجائے گی۔
دنیا تیزی سے مصنوعی ذہانت کی تخلیق اور اسکے مختلف صنعتوں میں استعمال پر کام کررہی ہے۔ کئی ممالک اور کمپنیاں اس شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کررہی ہیں جن کے ثمرات اور نفع آنیوالے سالوں میں ملے گا۔ مصنوعی ذہانت سے مختلف امور چابکدستی، سوفیصد درستگی، ایک ہی معیار اور لاگت میں کمی کے ذریعے انجام دینا ممکن ہوگیا ہے۔ وہ گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اب زیادہ نفع کمارہی ہیں اور اخراجات میں کمی سے فائدہ اٹھارہی ہیں جنہیں ماضی میں زیادہ افرادی قوت یعنی مزدوروں کی ضرورت ہوا کرتی تھی۔ اب نہ کسی چھٹی یا تعطیل کا مسئلہ ہے، نہ کسی کی بیماری کاروباری پیداوار کو متاثر کرتی ہے۔ نہ ہی کوئی ہفتہ وار تعطیل درکار ہے اور نہ ہی تھکاوٹ اور وقفے کا مسئلہ ہی درپیش رہا۔ اب مصنوعی ذہانت پورے پلانٹ کو ایک منظم انداز میں چلاتی ہے اور مشینیں اس کمپیوٹر سافٹ وئیر سے منسلک ’حکم‘ کو بلاچوں وچرا بجا لارہی ہیں۔
مستقبل کی گاڑیوں میں بھی یہی ٹیکنالوجی استعمال ہوگی جس سے ہمارے روایتی مکینک بھی کام سے جائینگے۔ انہیں جدید رجحان اور ٹیکنالوجی کے مطابق خود کو استوار کرنا ہوگا ورنہ ہم پیچھے رہ جائینگے۔ اسی طرح طب کے میدان میں، زراعت کے شعبے میں مختلف تجربات کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ذاتی زندگی میں سیکریٹری اور دیگر سٹاف کے جھنجھٹ سے آپکو نجات مل جائیگی اور ایک سافٹ وئیر پروگرام یعنی مصنوعی ذہانت سے جْڑا نظام ہمہ وقت دن رات آپکی خدمت کیلئے مامور رہے گا۔ آپکے موبائل میں آواز سے کام کرنے والا سافٹ وئیر اس کی چھوٹی سی مثال ہے۔
مصنوعی ذہانت پر ہالی ووڈ کی کئی فلموں میں مستقبل کی جھلک دکھائی گئی ہے۔ ایسی ہی ایک فلم ’آئرن مین‘ بھی ہے جس میں ایک شخص انجینئرنگ سے متعلق کام مشین اور سافٹ وئیر کمانڈ سے انجام دیتا دکھایا گیا ہے۔ یہ دراصل وہ خیال ہے جس پرآنے والے دور میں معاشرے اور صنعت وحرفت وغیرہ کو استوار کیاجارہا ہے۔ سادہ الفاظ میں ہم مشینوں کے رحم وکرم پر ہوں گے اور یہ بحث بھی ایک نیا دلچسپ رْخ لے گی کہ آیا مشینیں ہمارے حکم کے تابع ہیں یا پھر ہم مشینوں کے تابع اور ان کے محتاج؟ مصنوعی ذہانت کا استعمال مستقبل کے فوجیوں پر کیاجارہا ہے۔ ہالی ووڈ کی ہی ’سوپر ہیومن‘ اور ’سوپر ہیروز‘ کی فلمیں بھی اسی سوچ کا اظہار ہیں۔ امریکہ میں جنگی جہاز مصنوعی ذہانت سے اڑانے کا بھی کامیاب تجربہ کیا گیا ہے جس کا مقصد انسانی جان کے نقصان سے بچنا اور دشمن پر زیادہ شدید حملہ کی قوت حاصل کرنا ہے۔ اس طرح سے انسانی قوت پر انحصار خاصی حد تک کم ہوتا جائے گا اور مشینوں پر بڑھ جائے گا۔ اسی طرح گھروں کے اندر صفائی، برتن دھونا، کھانا پکانا اور خادمہ یا خادم کی خدمات انجام دینے والے روبوٹ مصنوعی ذہانت سے کام کریں گے۔ انسانی تنہائی اور غمگساری کے پہلو کو بھی مصنوعی ذہانت میں جگہ دی گئی ہے۔
صدرڈاکٹر عارف علوی تحریک انصاف کے بانی رہنماؤں میں شامل ہیں۔ وہ بنیادی طورپر دانتوں کے ڈاکٹر ہیں اور ان کو یہ پیشہ ورثہ میں ملا ہے۔ انکے والد گرامی بھی ایک جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر ڈاکٹر تھے۔ پی ٹی آئی میں جب وہ شامل ہوئے تھے تو ان کو علم نہیں تھا کہ وہ ایک دن صدر مملکت کے ریاستی سربراہ کے اعلی ترین منصب پر متمکن ہونگے۔ جب وہ کپتان کی قیادت میں کام کررہے تھے تو اس وقت زیادہ تر مایوسیوں کا ہی سایہ ہوتا تھا، ناامیدیاں ہی طعنے بن کر برسا کرتی تھیں، لیکن اب یہ حقیقت بن چکی ہے۔ ایک نیا خواب صدر ڈاکٹر عارف علوی نے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں دیکھا ہے۔ خدا کرے، پاکستان جدید دنیا کے اس جدید ترین اور حساس مضمون میں بھی کامیابی وکامرانی حاصل کرکے مستقبل میں آنے والے چیلنجوں سے نبردآزما ہو۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024