دہشتگردی کا تعلق مذہب سے نہیں
مکرمی! نیوزی لینڈکے شہرکرائسٹ چرچ میں مساجد پرنمازجمعہ کے دوران حملے کے بعد دنیا بھر میںتعزیتی اجتماع اور مظاہرے جاری ہیں۔اب کی بار کون کہے گا کہ مسلمان دہشت گرد ہیں کیوںکہ اس بار تو خود مسلمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور یہ نشانہ بنانے والا ایک عیسائی تھا۔ اب کی بار تو کسی نے نہیں کہا کہ عیسائی دہشت گرد ہیں۔ اور کہنا بھی نہیںچاہیے کیوں کہ دہشتگردی کا تعلق مذہب سے نہیں ہے توجہاں بھی کوئی دہشت گردی کا واقع پیش آتا ہے بغیر کسی تصدیق کے مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔دن دہاڈے ایک شخص نیوزی لینڈ جیسے پُرامن ملک کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد النور پر حملہ کر کہ پچاس سے زائد مسلمانوں کو شہید کرتا ہے نیز اُس کی ویڈیو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بُک پربراہ راست ایک شوٹنگ گیم کی مانند دکھاتا ہے۔ لیکن اُسے کسی نے عیسائی دہشت گرد نہیںکہا۔ یہ ایک بڑی ہی بد قسمتی کی بات ہے کہ مسلمان کہیں بھی اپنے حق کے لیے بھی لڑیں تو اُنہیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔دہشت گردی کا تعلق مذہب سے نہیں ہے اگر کسی بھی بے گناہ اور معصوم کا بلاوجہ قتل کیا جائے تو وہ وہ دہشت گردی کہلائے گی۔اشین وریتھو مسلسل برما میں مسلمانوں کو شہید کئے جا رہا ہے اُسے تو کبھی کسی نے نہیں کہا کہ بدھ دہشتگردی ہے۔بابُوبجرنگی نے گجرات میں مسلمانوںکا قتل عام کیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ اُسے مُودی کی اجازت تھی۔تب بھی کسی نے نہیں کہا کہ ہندو دہشت گردی ہے۔بھگت سنگھ آزادی کے لیے لڑا انگریزوں کی ٹرین لُوٹی اُن کے اہلکار ہلاک کیے اور آج وہ سب کا ہیرو ہے لیکن اگر یہی کام بُرہان وانی کرے یا عادل ڈار کریں تو وہ دہشتگرد ہیں۔آزادی کی لڑائی اور دہشت گردی دو الگ چیزیں ہیں۔ ان دونوں کو ملایا جائے تو لوگ اضطراب میںمبتلا ہو جائیں گے۔ (حراء روف لاہور)