گزشتہ دنوں ایک تحریر نظر سے گزری جس میں دس پندرہ سال قبل مدینہ کے گورنر کے حوالے سے ایک واقعہ درج تھا۔ گورنر مدینہ کے پاس ایک شخص آیا جس نے بتایا کہ اس کا گزارہ نہیں ہوتا ،تعاون کریں۔ گورنر نے اس کیلئے 50 لاکھ ریال کی منظوری دے دی۔ یہ شخص واپس گیا تو وہاں موجود اس کے ایک واقف کار نے بتایا کہ یہ شخص مفلس اور نا دار نہیں ہے بلکہ وہ آج بھی ایک مہنگی گاڑی میں یہاں تک آیا ہے۔ گورنر نے کہا ہمیں انویسٹی گیشن کی ضرورت نہیں، بس ایک شخص نے کہہ دیا کہ وہ ضرورت مند ہے،ہم نے اعتبار کیا اور اس کی مدد کر دی۔گورنر نے مدد اپنی جیب سے نہیں حاصل شدہ اختیارات کے تحت قومی خزانے یعنی بیت المال سے کی ۔ہمارے سینیٹرز قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران عموماً ارب پتی ہی نہیں کھرب پتی بھی ہیں۔انہوں نے قومی خزانے سے اپنی تنخواہیں بڑھالیں۔ قومی خزانے میں کہاں سے رقم آتی ہے؟ یہ پاکستانیوں کے ٹیکس کی رقم ہے۔ٹیکس ایک بھکاری بھی ادا کرتا ہے۔سیلز ٹیکس سگریٹ ماچس اور چائے کی پتی روٹی وغیرہ سمیت ہر چیز پر لاگو ہے۔ ان لوگوں کے عمومی لائف سٹائل کو پر سرسری نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتنے ’’مفلس و لاچار‘‘ہیں۔ کروڑوں کی گاڑیاںاربوں کی رہائش گاہیں اور کھربوں کے اثاثے ہیں۔ یہ لوگ زرق برق لباس میں اسمبلی آتے ہیں۔نوکروں کی تعداد بے شمار ہے۔ گزشتہ برسوں کروڑوں اور آج کل انتخابی مہم پر اربوں روپے خرچ کر دیتے ہیں۔ یہ بھی خود کو مستحق سمجھتے ہیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔مراعات میں ’’انھے واہ‘‘ اضافہ کرنے پر وزیراعظم عمران خان نے نوٹس لیا ۔ انہوں نے اس بل پر نظرثانی کا کہا،نظر ثانی نہیںبل مکمل طور پر واپس ہو۔ یہ لوگ قومی خزانے سے اپنی ضروریات پوری کرنا چاہتے ہیں۔قوم کے خدمت گاروں یہ مطالبہ کم از کم تیس برس قبل کردیا ہے ۔ فاضل ارکان جن طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں،کیاان میں سے کوئی بھی فرد پیٹ بھرے بغیر نہیں سوتا؟ ہر کسی کے پاس اپنا گھر اورروزگار ہے؟انکے بچوں کو اسی طرح تعلیم حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہیں جس طرح قابل احترام ممبران پارلیمنٹ کی اولادوں کومیسر ہیں؟ کیا ان لوگوں کے خاندانوں کو علاج معالجے کی سہولتیں اسی طرح حاصل ہیں؟پینے کا شفاف پانی اور معیاری غذا سب پاکستانیوں کو میسر ہے جس طرح اسمبلی کے ان ممبران کو ہے جو اپنی مراعات میںاضافہ کرنے کے خواستگار بلکہ مُصرہیں۔ اگر جواب نہیں میں ہے تو کوشش کریں کہ انکے علاقے کے ہر فرد کو یہ سہولت میسر ہو اس کے بعد یہ جتنی مرضی اپنی مراعات میں اضافہ کرلیں کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف آپ کا وزیراعظم ملک ملک جا کر مدد کی درخواستیں کر رہا ہے۔ اپوزیشن وزیراعظم کو بھکاری کہہ رہی ہے تو ایسے ملک کی ایک اسمبلی کے ارکان افسوسناک رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔عثمان بزدار سے عوام کو بہت بڑی توقعات تھیں مگر افسوس، وہ ان پر پورا نہیں اتر سکے ۔ ملاوٹ اسی طرح ہو رہی ہے، تجاوزات کیخلاف آپریشن ہوا مگر تجاوزات سے پھر بازاراور سڑکیں سکڑ گئی ہیں۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے اعلان کیا کہ چوکوں میں بھکاری نظر آئیں تو ان کو گرفتار کر لیا جائیگا۔مگر اس حکم کو ہوا میں اڑادیا گیا۔
وزیراعظم عمران خان کو اپوزیشن آگے لگا کے رکھنا چاہتی ہے۔وہ کسی بلیک میل میں آرہے ہیں نہ کسی مصلحت کا شکار ہو رہے ہیں نہ کسی دباؤ کو خاطر میں لا رہے ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ مودی کے ساتھ مذاکرات ہو سکتے ہیں چوروں کے ساتھ بات نہیں ہوسکتی۔ چوروں کو اپنے کئے کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ یہی تحریک انصاف کا منشور پروگرام تھااور ایجنڈاہے۔دوسری طرف اپوزیشن حکومت کی طرف سے کسی مصلحت کا شکار نہ ہونے پر پراپیگنڈہ کر رہی ہے بار بار کہا جا رہا ہے کہ ہم آپ کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں، معاشی میثاق لانا چاہتے ہیں۔آپ میثاق جمہوریت لائیں یا معاشی میثاق لیکن اگر کسی کیخلاف کرپشن کے الزامات ہیں تو اس کا جواب دیں۔ اپوزیشن کے کچھ لیڈر اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ مخالفت میں ذاتی مفاد اولین اورقومی مفاد ثانوی ہو جاتا ہے۔میاں نواز شریف ڈان لیک سے انکار کرتے رہے جس میں کہا گیا تھا کہ ہم تو شدت پسندوں کیخلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں مگر ایجنسیاں آڑے آجاتی ہیںیہ خبر کی صورت میں سامنے آیا تواس سے صریح انکار کردیا گیا۔میاں نواز شریف کو سزا ہوئی، وزارت عظمیٰ سے معزول ہوئے تو کہہ رہے تھے ڈان لیکس میں اگر کچھ کہا تھا تو کیا غلط تھا، پھر میاں نواز شریف نے ممبئی حملوں کے حوالے سے پاکستان کی طرف انگلی اُٹھا دی۔ یہ بھی کہا کہ ممبئی حملے کے ذمہ داروں کو عدالتوں نے سزا کیوں نہیں دی۔ اسکے باعث ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کیلئے مشکلات پیدا ہوئیں۔ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کر لیا گیا اسکے بعد بلیک لسٹ میں شامل کرانے کیلئے بھی کچھ طاقتیں سرگرم ہیں جن کا راستہ ہمارے ہونہار رہنما ہموار کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس کی، انکا بیانیہ حیران کن ہے۔ انہوں نے بھی میاں نواز شریف والی بات دہرائی۔ شدت پسندوں کے حوالے سے کہا کہ کابینہ میں بھی کچھ شدت پسندوں کے رابطہ کار موجود ہیںاور وہ بار بار ڈھٹائی سے اس دعوے کا اعادہ کررہے ہیں۔ اس سے عالمی برادری کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔اس سے پاکستان کیلئے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024