وطنِ عزیز اپنے جغرافیائی حدود اربعہ کی وجہ سے اس وقت نازک ترین صورتِحال سے گزر رہا ہے۔ سچ پوچھیے تو ہمارے چاروں اطراف ایسے ہمسائے ہیں کہ جن کی دوستی اور دشمنی پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اور اسکے غیور عوام نے ہمیشہ افغانستان اور ایران کو نہ صرف اپنا ہمسایہ بلکہ اسلامی اُمہ کا رکن ہونے کے ناطے برادر پڑوسی سمجھا اور جانا جبکہ تیسری طرف بھارت جیسا ناقابلِ اعتبار ہمسایہ ہر وقت ہمارے لیے تعصب کی آگ میں جل رہا ہے۔ لے دے کہ ایک چین ایسا ملک ہے جو اپنے معاشی اور جغرافیائی مفادات کی خاطر پاکستان کے ساتھ دوستی کا بھرم رکھے ہوئے ہے۔ جیسا کہ گذشتہ دنوں بھارت نے ایک دفعہ پھر پاکستان کیساتھ جارحیت کا ارتکاب کیا مگر ہماری قوم اور افواج کے ڈٹ جانے سے وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ قارئین! ملک میں اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے مگر شومئی قسمت قوم ہمہ وقت بٹی اور تقسیم ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ گذشتہ روز میں اپنے آبائی قصبہ میترانوالی کچھ دنوں کے لیے گیا ہمارا یہ خوبصورت اور پیارا گائوں ہر قسم کے تعصب اور منافرت سے پاک تھا، ہمارے محلے کی ایک چھوٹی سی مسجد جہاں لوگ مل جُل کر فرائض کی ادائیگی کرتے تھے۔ اس مسجد کے امام صوفی اللہ دتہ مرحوم تھے جو قیام پاکستان کے وقت اپنی مرضی سے پاکستان میں ہی رہے اور مشرف بہ اسلام ہو کر مسجد کی امامت کے فرائض ادا کرنے لگے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کالج جانے تک ہمیں یہ نہیں پتہ تھا کہ ہمارے محلے میں چاروں فرقوں یعنی بریلوی سُنی، دیوبند، اہل حدیث اور شیعہ کی ایک خطیر تعداد موجود ہے مگر ان تمام مسالک کے لوگ بِلاامتیاز صوفی اللہ دتہ مرحوم کے پیچھے نماز کی ادائیگی کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے مگر انہی دنوں ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق مرحوم نے شب خون مارکر اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ جما لیا۔ اقتدارکو مضبوط بنانے اور تادیربلکہ آخری دم تک پر اقتدار کے گھوڑے پر سواررہنے کیلئے پاکستان میں مختلف مسلکوں کی لڑائیاں کرانا شروع کر دیں اس طرح قوم کو تقسیم کرکے سامراج والا ہتھکنڈا استعمال کیا گیا جسکے اثرات بعدازاں اس قدر زہریلے ثابت ہوئے کہ پور املک بارود اور بدامنی کی لپیٹ میں آ گیا۔ انہی دنوں روس نے افغانستان میں فوجیں اتاریں تو امریکہ بہادر نے جنرل ضیاء کی دکٹیٹر شپ کو زیادہ سے زیادہ سپورٹ کیا اور سادہ لفظوں میں پاکستان جنگجو پیدا کرنے والی ایک ریاست بن گیا جہاں غیر ممالک سے شدت پسند مسلم نوجوان آ کر اپنی تسکین کرنے لگے جس کا نتیجہ 2001ء میں اس وقت سامنے آیا جب نائن الیون والا سانحہ رونما ہوا جس میں تین ہزار سے زائد امریکی مارے گئے۔امریکہ نے انتقام لینے کیلئے پاکستان کو کھنڈر بنانے کی دھمکی دیدی مگر اس وقت صدرجنرل مشرف کی کامیاب حکمتِ عملی نے پاکستان کو امریکی غضب کا شکار ہونے سے بچا لیا مگر صدام حسین کاعراق، معمر قذافی کا لیبیا اور حکمت یار (طالبان) کا افغانستان آج واقعی کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان ممالک سے ایسا بھیانک انتقام لیا گیا کہ یہ 2019ء میں بھی قبل از مسیح دور کی تصویر کشی کر رہے ہیں۔ امریکی بدلے کی یہ آگ اب تک ایک کروڑ مسلمانوں کو نِگل چکی ہے جبکہ وطن عزیز پاکستان میں بھی اس آگ کے شعلوں نے ایک لاکھ سے زائد سویلین اور دس ہزار سے زائد عسکری جوانوں اور افسروں کو شہید کیا ۔اسکے ساتھ ایک محتاط سروے کیمطابق قومی معیشت کو ڈیڑھ سو ارب ڈالرز کا ناقابل برداشت نقصان پہنچا۔ اس طرح مذہبی اور مسلکی منافرت نے پاکستان کے معاشی ڈھانچے اور استحکام کو نقصان پہنچایا مگر قارئین میرے میترانوالی قیام کے دوران یہ بات میرے علم اور مشاہدے میں آئی کہ وہ چھوٹا سا قصبہ جہاں چند سال پہلے میرے بچپن میں صرف چار یا پانچ مساجد تھیں آج وہاں تینتیس مساجد اور درجن بھر مدارس قائم ہو چکے ہیں جبکہ مذہبی ٹینشن کی وجہ سے میترانوالی جس کی آبادی 1970ء کے اوائل میں پینتیس ہزار تھی آج پینتالیس سال بعد صرف بیس ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے اور قصبہ میں موجود تین درجن مساجد میں بوقت نماز دو درجن نمازی بھی حاضر نہیں ہوتے ۔ ہر مسلک کے لوگ اپنی سُپرمیسی کیلئے اسلحے کا کھلا اور بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔وہ گائوں جہاں کبھی اخوت اور بھارئی چارے کا دور دورہ تھا وہاں اب ایک دوسرے کو پکارنے کیلئے اُسے اُسکے مسلک کے نام سے بلایا جاتا ہے۔ تمام مساجد اور اکثر مدرسوں میں اسلحہ کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جو کسی بھی وقت کسی بڑے سانحہ کا موجب بن سکتے ہیں جبکہ مقامی انتظامیہ اور سیالکوٹ میں بیٹھے ڈی پی او اور کمشنرز حضرات خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ۔خدا نخواستہ کسی بڑے سانحہ کے وقت ان کو صرف چند دن کیلئے معطل کرکے پھر بحال دیا جائیگا۔ میری وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار اور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سے پاکستان کے موقر جریدے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ پر کالم کے ذریعے التماس ہے کہ میترانوالی اور سیالکوٹ کو بدامنی کی آنے والی ممکنہ لہر سے بچانے کیلئے ایک گرینڈ آپریشن شروع کرکے اولیاء اللہ کی اس دھرتی کو دشمنی ،تعصب اور منافرت کی اس آگ سے بچائیں ۔ کیا حکومت کے پاس ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے کہ مساجد کو حکومتی تحویل میں لے لیا جائے جیسا کہ ترکی، مراکش، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک میں رائج ہے۔ میری معلومات کے مطابق گزشتہ دورِ حکومت میں تمام مسالک کیلئے قابل جمعۃ المبارک کے خطبات تیار کرائے گئے تھے،وہ یا موجود حکومت ایسے مسلکی تعصبات سے پاک خطبات تیار کرکے تمام مساجد میں لاگو کردے۔ شاید اسّی سال پہلے سیالکوٹ کے عظیم سپوت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے ایسے ہی کسی خطرے کے پیشِ نظر فرمایا تھا کہ:
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
مَن اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024