پیر‘ یکم رجب المرجب 1439 ھ ‘ 19؍ مارچ 2018ء
بلوچستان حکومت کا گوادر میں کول پاور پلانٹ کی تعمیر کی اجازت سے انکار
سی پیک اور گوادر لازم و ملزوم ہیں اسی لئے سی پیک اور گوادر کے دشمن کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ منصوبہ جلد از جلد مکمل ہو اور پاکستان ترقی کے سفر کی شروعات کرے۔ اب تک اطلاعات تھیں کہ گوادر میں چین کی مدد سے بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کول پاور پلانٹ لگایا جا رہا ہے۔ اس پر مرکز او رصوبائی حکومت میں کوئی اختلاف نہیں تھا مگر جیسے ہی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے نادیدہ ہاتھوں کی مدد سے صوبائی حکومت کا خاتمہ کیا اب وہاں کی موجودہ صوبائی حکومت اس کول پاور پلانٹ کی اجازت دینے سے مکر گئی ہے اور اسے ماحولیات کو درپیش خطرات کا سبب قرار دیا ہے۔ قربان جایئے اس بے تکی منطق کے، صحرا میں جہاں نہ سبزہ ہے نہ پینے کا پانی، ایک طرف سمندر ہے دوسری طرف صحرا عظیم نہ کوئی بڑی آبادی وہاں نجانے حکومت بلوچستان کی کونسی ماحولیاتی آلودگی کو خطرہ ہو گا۔ کراچی زیادہ قریب ہے۔ وہاں کروڑوں افراد رہتے ہیں وہاں کول پاور پلانٹ سے کوئی خطرہ نہیں تو گوادر کے چند ہزار نفوس کو وسیع و عریض بنجر صحرائی علاقے کو کیا خطرہ ہو گا۔ کہیں یہ زیادہ سے زیادہ کمیشن وصول کرنے کا کوئی حیلہ یا بہانہ تو نہیں۔ لگتا ہے سی پیک اور گوادر پورٹ مخالف پراسرار طاقتیں کسی اور رنگ میں اب اس ترقی کے منصوبے پر حملہ آور ہو چکی ہیں۔ چین والے پہلے ہی جابجا اعتراضات سے پریشان ہیں اب تو رکاوٹیں بھی ڈالی جا رہی ہیں حالانکہ اس گوادر شہر کے پاس بلوچستان کی تازہ دریافت شدہ بااثر حکومتی شخصیت کے بھائی اور دوست سینکڑوں کنال اراضی حال ہی میں حکومتی مہربانی سے لیز پر لے چکے ہیں، کیا اس سے مستقبل میں کوئی ارضیاتی تصادم کا خطرہ پیدا نہیں ہو گا؟
………………
عمران کی شکل میں دوسرا بانی ایم کیو ایم
نہیں چاہئے: بلاول
یہ تو بڑی غلط بات ہے۔ اختلاف رائے میں اتنی بھی تلخی درست نہیں ہوتی۔ کل تک کمر کے پیچھے سے جن لوگوں سے ہاتھ ملایا آج ان کو ہی یک جنبش لب غدار کے برابر قرار دینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ ہم تو پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ زرداری صاحب سینٹ چیئرمین شپ کے الیکشن میں خان صاحب کو بطور سیڑھی استعمال کریں گے پھر اس کے بعد پھینک دیں گے۔ وہی ہوا آج بلاول صاحب فرما رہے ہیں کہ وہ عمران خان کی شکل میں دوسرا ایم کیو ایم کا بانی نہیں چاہتے۔ گویا انہوں نے اپنے کل تک کے خان انکل کو بھی لندن والے انکل کے برابر کھڑا کر دیا۔ ابھی بلاول صاحب سیاسی میدان میں نووارد ہیں، انہیں ان کے پدر بزرگوار بھی فی الحال سائیڈ لائن پر بٹھا کر رکھتے ہیں اس لئے بلاول جی کو اتنی بڑی بات کہنی نہیں چاہئے جس سے سیاسی فضا مکدر ہو۔ ابھی تو صرف سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین گھوڑی چڑھے ہیں، گھوڑی بے شک پی پی پی کی ہے مگر اس کی باگ تو پی ٹی آئی والوں کے ہاتھ میں ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بات بگڑ جائے اور کوئی نئی مشکل پڑ جائے۔ پیپلز پارٹی کو ڈر یہ ہے کہ کہیں خان صاحب خان بھائی بن کر کراچی اور اندرون سندھ میں ان کی منہ زور وڈیرا سائیں حکومت کو لگام نہ ڈال دیں جس کی وجہ سے انہیں اپنی سیاسی جاگیر خطرے میں نظر آ رہی ہے اور وہ شور مچا رہے ہیں تاکہ اپنی موروثی سیاسی سلطنت بچا سکیں۔
………………
کراچی ایک ہفتے میں صاف چاہئے: چیف جسٹس، ساری رات مچھر مارتا رہا
یہ تو ایسی انہونی خواہش ہے جو شاید الہ دین کے چراغ کا جن بھی اب انجام دینے سے قاصر ہے۔ اب تو کراچی کچرے کا ہم وزن اور ہم معنی ہو چکا ہے۔ شاید ہی کوئی گلی سڑک یا بازار صاف ملتا ہو۔ عام کچرا کنڈی غریب جھونپڑ بستی ہو یا شہر کی اندرونی اور کچی آبادیاں سب یکساں حسن سلوک کا شکار ہیں۔ پہلے تو صرف لالو کھیت بدنام تھا اب سارا کراچی ایک ہی رنگ میں رنگا نظر آتا ہے۔ پوش آبادیوں کا ذکر نہ کریں وہاں کون سے خاندانی رئیس آباد ہیں، ان کے ذاتی نوکر چاکر گیٹ کے آگے جھاڑو لگاتے ہوں گے مگر وہ بھی کچرا ٹھکانے نہیں لگاتے، ساتھ والی دیوار یا خالی پلاٹ میں پھینک دیتے ہیں۔ سو یہی وجہ تھی کہ چیف جسٹس صاحب کو پوش ترین علاقے میں بھی ساری رات کراچی کے مچھروں سے نبرد آزما رہنا پڑا۔ بقول ان کے جس مچھر کو بھی مارا وہ خون سے بھرا ہوتا تھا۔ ظاہر ہے یہ مخلوق تو طبقہ امرا کی طرح پلتی ہی عوام کے خون پر ہے۔ ان سے خون نہیں نکلے گا تو کیا پانی نکلے گا جو کراچی میں میسر نہیں۔ کراچی کے کھٹمل، مچھر اور چوہوں کی شہرت تو ویسے ہی چہار وانگ پھیلی ہوئی ہے، اہل کراچی تو غالباً انہی مچھروں کی رعیت ہیں، ایک کالونی کا نام بھی مچھر کالونی رکھا ہوا ہے۔ میئر کراچی اب حیران پھر رہے ہیں کہ ایک ہفتے میں کراچی کو صاف کیسے کریں۔ وہ تو ایک سال کے الٹی میٹم پر کراچی کو صاف نہ کر سکے تو یہ 7 دن والی فلم کیسے چلے گی… اتنے دن میں تو کراچی کے نالے دریافت نہیں ہو سکتے جو کچرے تلے غائب ہو چکے ہیں۔
………………
پانی کی قلت سے ملک میں گندم کے بحران کا خطرہ
اس برس بھی خشک سالی نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ موسم برسات بھی پھیکا پھیکا گزرا۔ محکمہ موسمیات والوں نے زبردست بارشوں اور سیلاب کی اطلاعات دے کر عوام کی جان نکالی ہوئی تھی۔ مگر ایک بوند بھی اضافی نہیں برسی۔ گرمی کے موسم میں بھی کھل کر بارش نہ ہوئی۔ بقول شاعر؎
وہ ابر تھا تو اسے ٹوٹ کر برسنا تھا
یہ کیا کہ آگ لگا کر ہوا روانہ ہو
والی حالت رہی۔ اس کے بعد اب سردیوں میں امید تھی کہ کچھ رم جھم ہو گی مگر بادل آئے بھی تو بے رخوں کی طرح بس منہ پھیر کر گزر گئے۔ ماہرین کو امید تھی کہ سردیوں میں بادل برسیںگے مگر وہ بھی نہ برسے اب بہار بھی جا رہی ہے۔ گرمیوں کی آمد آمد ہے۔ یہی حالت رہی تو ڈیم کہاں سے بھریں گے۔ نہروں میں پانی کہاں سے آئے گا۔ خشک سالی کی وجہ سے گندم کی فصل 30 سے 40 فیصد تک متاثر ہو گی تو لوگ نان جویں کو ترسیں گے۔ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والوں کو جب یہ نان روٹی 100 روپے کی ملے گی تو شاید ان کی آنکھیں کھلیں گی۔ صوبائیت پھیلانے والے سیاستدان اور قوم پرست سیاستدان تو پیسے والے لوگ ہیں وہ تو بند ڈبل روٹی نہ ملے کیک کھا لیں گے غریب لوگ جو ان کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے ہیں وہ کہاں جائیں گے۔ یہاں تو کوئی بھنڈاری بھی نہیں جو بھنڈار بانٹے گا۔ سو تیاری کر لیں بھوکے مرنے کی یا کالا باغ ڈیم بنانے کی۔ یہ ڈیم بنا تو تب ہی خشک سالی میں نہروں کو گندم کی فصل کے لئے پانی دستیاب ہو گا اور برسات میں اضافی پانی کا ذخیرہ کر کے سیلاب سے بچا جا سکے۔ ورنہ چار سو بھوک‘ خشک سالی یا سیلاب ہی ناچے گا۔