گریوٹی فلم سے متاثر ہوکر جاپانی لڑکی کم عمری میں سائنسدان بن گئی
ٹوکیو(بی بی سی ڈاٹ کام)زندگی میں کچھ نیا کرنے کا حوصلہ کہیں سے بھی آ سکتا ہے۔ جیسے ایک فلم نے ایک جاپانی لڑکی کو بہت کم عمر میں ایک سائنس دان بنا دیا، آپ کو یہ جان کر حیران ہوگی لیکن یہ سچ ہے۔ اس لڑکی کا نام امبر یینگ ہے۔ ایک دن وہ اپنے گھر میں ہالی وڈ فلم ’گریوٹی‘ دیکھ رہی تھی۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ایک بین الاقوامی خلائی سٹیشن حادثے کے نتیجے میں تباہ ہو جاتا ہے۔ فلم کو دیکھنے کے بعد، امبر یینگ کے دماغ میں ایک سوال آیا کہ ہم مصنوعی سیارے، ریسرچ انجن، راکٹ اور خلائی جہاز خلا میں بھیجتے ہیں، جو اسی طرح حادثوں کا شکار ہو سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ تمام ملبہ کہاں جاتا ہے؟ لہٰذا اس خیال کے آنے کے بعد امبر یینگ نے فیصلہ کیا کہ وہ کوئی ایسا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کریں گی جس کی مدد سے خلا میں موجود ملبہ آئندہ خلا میں جانے والے انسانوں کے لیے خطرے کا باعث نہ بنے۔ انھوں نے کہا کہ خلا میں تباہ ہونے والے سیٹیلائٹس کا بہت سا ملبہ موجود ہے جو کہ زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ ایسے میں اگر ایک نئے سیٹیلائٹ کی ٹکر اس ملبے سے ہو جائے تو نہ صرف کروڑں اربوں کا نقصان ہو گا بلکہ تحقیقاتی منصوبے بھی نامکمل رہ جائیں گے۔ یینگ کی تحقیق کے مطابق اس وقت زمین کے گرد ایسے ہی مصنوعی سیاروں کے تقریباً پانچ لاکھ ٹکڑے گھوم رہے ہیں۔ یینگ یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ کون سا ٹکڑا کتنا پرانا ہے۔یینگ کا ماننا ہے کہ تعلیم صرف ریاضی یا سائنسی مطالعہ کا نام نہیں بلکہ تخلیقی کام زندگی کے لیے بھی اہم ہے۔ ان کے خیال میں موسیقی اور آرٹ کے ذریعے زندگی میں نئے رنگ بھرے جا سکتے ہیں۔
جاپانی لڑکی