راول ڈیم سے پانی عالمی معیار کے مطابق سپلائی کیا جا رہا ہے: راجہ شوکت محمود
راولپنڈی (عزیز علوی) ایم ڈی واسا راجہ شوکت محمود نے کہا ہے کہ راول ڈیم سے حاصل کیا گیا پانی فلتریشن اور کلوری نیشن کے عمل کے بعد عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق شہر میں سپلائی کیا جا رہا ہے عوام اسے بے دھڑک پیئیں روزانہ سپلائی سے پہلے پانی تین بار لیبارٹری سے چیک بھی ہوتا ہے جسے لوگ راول ڈیم ہم اسے لیک کہتے تھے راول ڈیم کے کیچمنٹ ایریا میں صاف پانی کا فلو نہیں رہا کیچمنٹ سے آنے والے نالہ کورنگ کے قریب پہلے تین ہزار کی آبادی تھی لیکن آج وہ آبادی تین لاکھ تک جا پہنچی ہے بنی گالہ میں تعمیرات کی بھرمار اور کیچمنٹ کے راستے میں تجاوزات سے ڈیم میں اب شفاف پانی نہیں آتا لیکن ہم روزانہ پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے زیر کنٹرول راول ڈیم سے روزانہ جو پانی لیتے ہیں اس کی فلٹریشن اور کلوری نیشن عالمی ادارہ صحت کے طے شدہ پیمانے کے مطابق کی جاتی ہے راول ڈیم سے یومیہ دس ملین گیلن ، خانپور ڈیم سے چھ ملین گیلن اور40 ملین گیلن واسا کے410 ٹیوب ویلوں سے لے کر شہریوں کو پانی فراہم کر رہے ہیں جبکہ اس وقت راولپنڈی میں واٹر سپلائی کیلئے واسا کو روزانہ تین ملین گیلن کی کمی کا سامنا ہے راول ڈیم کے کیچمنٹ ایریا میں سالانہ 400 سے600 ملی میٹر بارش ہوتی ہے جبکہ ڈیم میں پانی کا لیول752 1 ایکڑ فٹ ہے جس پر سپل وے کھل جاتے ہیں اللہ کے فضل سے آج واسا کے پاس اتنا پانی ہے کہ اسے ہم مون سون کی بارشوں تک لے جا سکتے ہیں انہوں نے ان خیالات کا اظہار نوائے وقت سے انٹرویو میں کیا ایم ڈی واسا نے کہا کہ خانپور ڈیم سے آنے والا جوپانی واسا سنگجانی سے لے رہا ہے اس کا کنٹرول سی ڈی اے کے پاس ہے سی ڈی اے بھی سنگجانی میں ذخیرہ آب کی عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق فلٹریشن اور ٹریٹمنٹ کرتا ہے چنانچہ راولپنڈی کو راول ڈیم اور خانپور ڈیم سے دیا جانے والا پانی مکمل طور پر انسانی صحت کے مطابق ہے انہوں نے کہا کہ راولپنڈی میں زیر زمین پانی کا لیول تیزی سے نیچے گر رہا ہے جو شہری پرانی سطح پر گھروں میں بورنگ کراتے ہیں ان کے بور کا پانی انسانی صحت کیلئے خطرناک ہوتا ہے راولپنڈی میں اب ہمیں زیر زمین پانی پر انحصار کو خیر باد کہنا ہوگا اور سرفیس واٹر کی طرف اقدامات کرنا ہوں گے ہمیں دریائے سندھ پر بنے غازی بروتھا ڈیم سے راولپنڈی کیلئے واٹر سپلائی لانی ہوگی اس وقت زیر زمین پانی ٹیوب ویلوں سے لے کر سپلائی کر رہے ہیں جو بہت مہنگا پڑتا ہے جبکہ واٹر سپلائی میںبجلی کی لوڈ شیڈنگ سمیت کئی مسائل سامنے آتے ہیں اگر ٹیوب ویلوں کی بجلی آبھی جائے تو جن شہریوں کو پانی سپلائی کرتے ہیں اگر اس علاقے میں لوڈ شیڈنگ ہو تو وہ اپنی موٹروں سے پانی نہیں بھر پاتے چنانچہ پانی کی کمی شہریوں کیلئے مشکلات کا باعث تو بنتی ہے گرمیوں میں پانی کی طلب زیادہ ہوجاتی ہے اسے بھی منیجمنٹ سے پورا کرتے ہیں جن علاقوں میں ہمارا ٹیوب ویل خراب ہو تو فری واٹر ٹینکر سروس اس علاقے میں دی جاتی ہے ایک سوال کے جواب میں ایم ڈی واسا راجہ شوکت محمود نے کہا کہ نالہ لئی میں اسلام آباد کے نالوں سے بہت گند آتا ہے مون سون میں سیلاب سے راولپنڈی کو بچانے کیلئے نالہ لئی میں آنے والے اس گندکی صفائی ہمیں کرانا پڑتی ہے راولپنڈی میں بھی تعمیرات کا ملبہ لئی میں گرادیا جاتا ہے جبکہ جو بھی شہری بلڈنگ بنائے اس کے ٹھیکیدار سے تحریری لیا جائے کہ وہ ملبہ کہاں لے جائے گا اس ملبے کی وٹس ایپ نگرانی بھی ہونی چاہئے اور جو اپنا ملبہ لئی میں گرائے اسے بھاری جرمانہ ہونا چاہئے تاکہ باقی عبرت پکڑیں۔