نیچا دکھانے کی کوشش
سینٹ انتخابات کے بعد اب عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہیںہر جماعت نے سینٹ میں اپنے تیئں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ۔یہی وجہ ہے جوائنٹ چیف آف آرمی سٹاف جنرل زبیر محمود حیات کو ایک تقریب میں کہنا پڑا کہ سیاستدانوں کو مخاطب بھی کیا اورکہاکہ ان لوگوں کو ہمارے چہرے پسند نہیں ہمارے خلاف باتیں کرتے رہتے ہیں ہمیںان کی پروا نہیں ہم اس وطن کے محافظ اور اس سے محبت کرتے ہیں ۔سیاستدان ویسے تو ایک دوسرے کیخلاف بات کرتے رہتے ہیں اور فوراً ہمارے ٹی وی چینلز ردعمل لینا شروع دیتے ہیںاور پھر ایک طوفان بدتمیزی شروع ہو جاتا ہے ۔ جنرل صاحب نے یہ بات ایسے ہی نہیں کر دی ایک پیغام دیدیا ہے ۔اس پر کسی کی جرات نہیں ہوئی کہ بات کرتے ٹی وی چینلز کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ عوام بھی دیکھ رہے کہ سینٹ انتخابات میں کیا ہوا اس طرح اگر سیاست کرنا ہے تو پھر عوام کو بیوقوف نہ بنایا جائے ۔ دوسرایہ کہ کسی کو حق نہیں ہے کہ اپنے کام کو چھوڑ دیںاور دوسروں کو وعظ کرنا شروع کردیں ۔اس وقت جو ایک انتشاری صورتحال ملک میںہے اس میں دیکھاجائے تو ہمارے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ دیگر ادارے بھی اس کے ذمہ دارہیں ۔ ملک سب کا ہے اور سب محب وطن ہیںکسی پر شک کرنا یا اس پر فتوے بازی کرنا درست نہیں ہے۔ یہ ملک ہے تو ہماری پہچان ہیں اور اس ملک کی وجہ سے سیاستدان سیاست کر رہے ہیں اور فوج اس کا دفاع کر رہی ہے ۔ آپس میں اختلافات کو اس نہج پر نہیں لے جانا چاہئے کہ بعد میں واپسی کا کوئی راستہ نہ رہے ۔
عام انتخابات سے پہلی سیاسی جماعتیں کوشش کر رہی ہیںکہ وہ کامیاب ہوں ۔ مسلم لیگ ن ابھی تک میاں محمد نوازشریف کی نااہلی کے باوجود پنجاب میں مضبوط نظر آ رہی ہے اور اسے کم از کم پنجاب میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جماعت نے پنجاب سے باہر نکلنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہے ۔ کے پی کے میں اپنے آپ کو مضبوط نہیں کر سکی ہے ۔ سندھ میں بھی اس نے ایم کیو ایم کے خاتمہ کے بعد اس جانب کوئی توجہ نہیں دی ہے اور اب بھی سندھ میں ان کی پوزیشن پہلے کی طرح کمزور ہے ۔ بلوچستان میں تو حکمرانی کا طریقہ کار اور ان کا منفرد انداز اس سینٹ انتخابات کے سامنے آ گیا ہے وہاں تو لگتا ایسے ہے کوئی جماعت ہے ہی نہیں ۔ وقت اور حالات کے مناسبت سے وہاں کے سیاستدانوں کی ڈرویاں ہلائی جاتی ہیں اور ڈرویاں ہلانے والے ہر بار کامیاب نظر آتے ہیں ۔ اس سے یہ اندازہ تو کیا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں کبھی بھی کوئی سیاسی جماعت مضبوط نہیں ہو سکتی ہے ۔ حیرت کی بات ہے کہ کامیابی سے چلنے والی حکومت کو کس طرح منظر نامہ سے ہٹا دیا گیا ۔ جس طرح شیر شکار کے بعد مردے جانور کو چھوڑ دیتا ہے پھراس کے اس مردے پر چرند و پرند حملہ کرتے ہیںاسی طرح بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کو کرتے دیکھا گیا ۔ یہ سیاسی روایت انتہائی مہلک اور خطرناک ہے اس سے سیاسی جماعتیں کمزور ہونگی کبھی مضبوط نہیںہو سکتی ہیں ۔ عام انتخابات میں صورتحال کچھ سینٹ کے نتائج سے مختلف نہیںہوگی ۔ بڑی بڑی جماعتوں میں توڑ پھوڑ ہونے والی ہے صرف اشارہ ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔ میاں نواز شریف ٹھیک ٹھاک مزاحمت کر رہے ہیں وزارت عظمیٰ سے گئے پارٹی عہدے سے گئے اب انہیں جیل بھیج کر سیاست سے آئوٹ کرنے کا پلان بن چکا ہے اس کے ساتھ ساتھ مریم نواز ٗ کیپٹن صفدر کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوگا اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر سارا کھیل کس لئے رچایا گیا تھا ۔ کرپشن کے الزامات کس پر نہیں ہیں سب کو کٹہرے میں کیوں نہیں لایا جا رہا ہے ۔ اس طرف ایک جماعت کے کیسز ختم کر دیئے گئے دو سری طرف ایک جماعت کو نشان عبرت بنایا جا رہا ہے ۔ پہلے چند ماہ میں یہ لوگوںنے دیکھ لیا ہے کہ کرپشن کے جتنے زیادہ الزامات ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ صحیح انداز میں کیس چلایا جاتا تو میاں صاحب آج منظر سے غائب ہوتے مگر وہ آج بھی اسی طرح مقبول ہیں اور ان کے لوگ ضمنی انتخابات جیت رہے ہیںسوال یہ ہے کہ سینٹ میں کیوںہارے ہیں ۔ سینٹ میں ان کی ہار سے یہ کم ازکم ثابت ہوتا ہے کہ وہ مایوس ہیں۔ اسی مایوسی میں انہوںنے سینٹ انتخابات میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے کیونکہ میاں صاحب کو جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہوچکا ہے اب وہ کس کیلئے یہ سب کچھ کریں ۔ اسی طرح ان کی بے زاری جاری رہی تو پھر عام انتخابات کے نتائج بھی سینٹ سے مختلف نہیںہو نگے کیونکہ پاکستانی سیاستدانوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہے ۔
شہباز شریف کا اکھڑ پن اور ڈکٹیٹرشپ والا رویہ ن لیگ کیلئے کبھی سود مند ثابت نہیںہوگا ۔ آنے والے چند ماہ انتہائی اہم ہیں اس میں ن لیگ کی اصل شکل سامنے آنے والی ہے ۔ ان کی اپنی جماعت کے لوگ اس وقت گروپس میں بٹ چکی ہے ۔ میاں صاحب نے بھی نیا صدر بنانے سے پہلے ان گروپس کو متحد نہیں کیا اور شہباز شریف کو ان سے نمٹنے کیلئے امتحان میںڈال دیا ہے ۔چوہدری نثار علی خان کی موجودگی میں میاں نواز شریف کے حامی شہباز اور چوہدری نثار کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ دوسری جانب عمران خان کی تحریک انصاف محض تقاریر اور جلسوں سے عام انتخابات جیتنا چاہتی ہے ۔ ان کا پنجاب میں سرے کوئی کردار ہی نہیں ہے عمران خان نے حنیف عباسی کو عبرت کا نشان بنایا اور شکست فاش دی ۔ اس کے بعد عمران خان نے ایک دفعہ بھی اس حلقہ میں آنے کی زحمت نہیںکی ہے ۔ ان کی پارٹی کے عہدیدار بھی بند کمروں میں بیٹھ کر سیاستدان کرنے کے عادی ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی سندھ میں جتنی بھی صفر کارکردگی ہو۔ وہ بھی سندھ تک ہی محدود ہے ۔ اس وقت پنجاب میں زیرو ہے کے پی کے میں زیرو اور بلوچستان میں بھی زیرو ہے لیکن لگتا ایسا ہے کہ سینٹ میں جس طرح ان کو کامیابی ملی ہے پیپلز پارٹی بھی اسی طرح کی حمایت کی توقع لگائی بیٹھی ہے ۔سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگی ہوئی ہیں اور انکی اپنی غلطیاں ہی ہمیشہ انہیں لے ڈوبی ہیں ۔