چلیں فوجی حکمرانوں کی دو دو بار شکار یعنی حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور اصلی تہ وڈی اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کم از کم ایک بات پر تو پارلیمنٹ میں ’’ایک‘‘ ہوئیں کہ ’’فوجی عدالتوں‘‘ کو مزید 2 سال توسیع دیئے بغیر وہ دہشت گردوں، تخریب کاروں اور خودکش حملہ آوروں کو کیفر ِکردار تک نہیں پہنچا سکتے۔
اب یہ خود اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ 16دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد جو جنوری 2015ء میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا‘ اُس کی کارکردگی کیسی رہی۔ نیشنل سکیورٹی کے سربراہ کے بیان کے مطابق اینٹی ٹیررسٹ کورٹوں سے فوجی عدالتوں کو 276 کیسز بھیجے گئے جس میں سے 161 کو عمر قید اور 141 کو مختلف نوعیت کی سزائیں دی گئیں جبکہ محض 12 جی ہاں 12 کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔ اسلام آباد کی حکومت کے مستند ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ 2008ء کے بعد سے یعنی جب سے پیپلزپارٹی نے اقتدار سنبھالا‘ اگلے آٹھ سال تک یعنی 2016 تک 8 ہزار مجرموں کو سزائے موت کی سزائیں دی گئیں جس میں کم و بیش ساڑھے آٹھ سو ہائی پروفائل دہشت گرد بھی شامل تھے مگر پیپلزپارٹی نے ایک پالیسی کے تحت ’’سزائے موت‘‘ کی سزا پرعملدرآمد روک دیا اور اس دوران یعنی آٹھ سال کے دوران صرف دو مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
اب ذرا اپنی سویلین عدالتوں یعنی ڈسٹرکٹ کورٹس، ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کا احوال بھی سُن لیں کہ خود چیف جسٹس آف پاکستان کے ایک حالیہ بیان کے مطابق اس وقت ملک کی چھوٹی بڑی عدالتوں میں 18 لاکھ کیسز زیرالتوا ہیں۔
سب سے بڑے صوبے پنجاب کی ڈسٹرکٹ کورٹوں میں 12 لاکھ 74 ہزار تین سو کیس برسہا برس سے انصاف کے طالب ہیں۔ صوبہ سندھ میں ایک لاکھ 21 ہزار 2 سو، خیبر پختونخواہ میں ایک لاکھ 88 ہزار 5 سو، صوبہ بلوچستان میں 3 ہزار 8 سو اسّی جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ڈسٹرکٹ کورٹوں میں 31 ہزار ایک سو مقدمات کی برسوں سے شنوائی ہورہی ہے۔ ذرا ہائیکورٹوں کی طرف آئیں کہ لاہور کی ہائیکورٹ میں ایک لاکھ 59 ہزار، سندھ ہائیکورٹ میں 84 ہزار ایک سو، بلوچستان ہائیکورٹ میں 6 ہزار ایک سو دس جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں 13 ہزار 789 مقدمات زیر التواء ہیں۔
یہاں چلتے چلتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ وطن ِعزیز کی عدالتوں میں ’’سزائیں‘‘ دینے کی شرح 2 فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے کیلئے ایک الگ کالم درکار ہے کہ ہماری عدلیہ کے سرخیلوںکا کہنا ہے کہ اس کا ذمہ دار استغاثہ Prosecution سسٹم ہے۔ پولیس حتیٰ کہ رینجرز تک ایسے کمزور کیسز لے کر آتی ہے کہ ہمارے لئے عدالتی تقاضے پورے کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
پھر جس بڑے پیمانے پر کیسز ہیں‘ اُس کے مطابق ہمارے پاس نہ تو عدالتیں ہیں اور نہ ہی عدالتی عملہ۔ اب تو حکومت نے مزید ملٹری کورٹوں کے قیام کی 2 سالہ مدت میں اضافہ کیا ہے تو سوال تو پھر یہی اُٹھے گا کہ سزا دینے کی شرح اگر ایک فیصد سے بھی کم ہے تو پھر کیا سویلین ملٹری لیڈر شپ کو ملٹری کورٹس کے بجائے اینٹی ٹیررسٹ کورٹس کیساتھ ساتھ سویلین عدالتوں کو فعال نہیں بنانا چاہئیے۔
وطنِ عزیز میں دہشت گردی کی حالیہ لہر آتی ہے خاص طور پر لاہور چیئرنگ کراس اور سیہون شریف جیسے خودکش حملے جس میں سینکڑوں شہادتیں ہوئیں اُس سے تو یہی لگتا ہے کہ ضربِ عضب بھی دہشت گردوں کا مربوط اور مضبوط نیٹ ورک نہیں توڑ سکا ہے۔ اس وقت بھی سینکڑوں کی تعداد میں ہائی پروفائل دہشت گرد جیلوں میں پکنک منارہے ہیں اور جہاں سے Laptop اور Mobiles کے ذریعے اپنا نیٹ ورک کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ ملٹری کورٹس۔ سو بسم اللہ۔
مگر جب تک سزائیں دینے کی شرح سو فیصد نہیں ہوگی‘ 2 کیا 4 بلکہ مزید 4 سال کی توسیع کے بعد بھی دہشت گرد ہمارے سکولوں، بازاروں اور مقدس مقامات کو نشانہ بناتے رہیں گے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024