موجودہ حکومت نے جب جون 2013ء میں اقتدار سنبھالا تو اسے بھاری مالیاتی خسارے ، قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ ، ادائیگیوں کے منفی توازن، زرمبادلہ کے ذخائر کے کم حجم ٹیکس وصولی اور اس کے بیس میں کمی، بڑھتے اخراجات ،جاری گردشی قرضوں کے بھاری حجم ، توانائی کے شعبے کی دگرگوں حالت ، سرمائے کے انخلائ، کرنسی کی شرح تبادلہ میں مسلسل کمی اور سرمایہ کاروں کے تیزی سے گرتے اعتماد جیسے چیلنجوں کا سامنا تھا۔ بیرونی محاذ پر ہمارے بڑے ترقیاتی شراکت داروں نے رو بہ انحطاط اقتصادی بنیادوں اور مستقبل قریب میں ملک کی طرف سے بیرونی ذمہ داریوں کے حوالے سے بظاہر نااہلیت کے باعث اپنی امداد میں خاصی کمی کر دی تھی۔ بڑے چیلنجوں میں سے ایک بیرونی مالیاتی امداد نہ ملنا بھی تھا جس کی وجہ سے مقامی ایکسچینج مارکیٹس زبردست اتار چڑھائو کا شکار تھیں۔ حکومتی قرضوں کا بڑا حصہ اندرونی قرضوں کی صورت میں تھا اور ان کی وااپسی کی مدت بھی مختصر ہو رہی تھی۔ جس کے نتیجہ میں نئے قرضوں کے حوالہ سے بڑے خطرات سامنے آ رہے تھے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر جو جون 2013ء میں 6ارب ڈالر کی سطح پر تھے فروری 2014ء میں کم ہو کر 2.8 ارب ڈالرز رہ گئے ۔ یہ صورتحال بیرونی قرضوں کے حوالہ سے بے حد خطرناک تھی۔
موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے ضروری اقدامات کئے۔ اس سلسلہ میں حکومت نے ایسامالیاتی نظم متعارف کرایا جس سے گرتی معیشت مستحکم اور اقتصادی نمو کی رفتار تیز ہوئی۔ ساتھ ہی حکومت نے ضروری اصلاحات کے ذریعے معیشت کی بحالی شروع کی جن میں غیر اہدافی زر اعانتوں میں کمی ‘ ٹیکس بیس میں توسیع ‘ سرکاری شعبہ کے کاروباری اداروں کی ڈھانچہ جاتی تشکیل نو ‘ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ‘ سماجی تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے مالیاتی خسارے میں کمی اورترقیاتی اخراجات کو نہ صرف تحفظ دینا بلکہ ان میں اضافہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔ جون 2013ء سے جون 2015ء تک اہم اقتصادی اشاریوں میں ہونے والی بہتری کا مختصر تذکرہ مندرجہ ذیل ہے۔
1۔مالی سال 2012-13ء میں ایف بی آر کے محصولات 1946ارب روپے کی سطح پر تھے جو مالی سال 2014-15ء میں بڑھ کر 2588 ارب روپے کی سطح پر پہنچ گئے۔ ایف بی آر مالی سال 2015-16ء کے دوران اپنے ہدف 3 ہزار ارب روپے سے زیادہ محصولات جمع کرنے کے ہدف کی جانب گامزن ہے۔
2۔مالی سال 2012-13ء میں 8.8 فیصد کے متوقع بجٹ خسارے کو 8.2 فیصد تک محدود کیا گیا اور یہ کامیابی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے صرف ایک ہفتے کے اندر حاصل کی۔ مالی سال 2014-15ء کے دوران بجٹ خسارے کو کم کرکے 5.3 فیصد کی سطح پر لایا گیا۔ ہم بجٹ خسارے کو جون 2016ء میں ختم ہونے والے مالی سال 2015-16 کے دوران مزید کم کرکے 4.3 فیصد کی سطح پر لانے کی جانب گامزن ہیں۔
3۔مالی سال 2013-14ء میں افراط زر کی شرح 8.62 فیصد تھی جسے مالی سال 2014-15ء میں کم کرکے 4.53 فیصد کی سطح پر لایا گیا۔ رواں مالی سال کے دوران جولائی 2015ء تا فروری 2016ء صارفین کے لئے قیمتوں کا حساس 2.48 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔
4۔مالی سال 2012-13ء کے دوران نجی شعبہ کو دیئے جانے والے قرضے منفی 19.2 ارب روپے کی سطح پر تھے یہ قرضے مالی سال 2014-15ء کے دوران بڑھ کر 208.7 ارب کی سطح پر پہنچ گئے۔ رواں مالی سال کے دوران 12 فروری 2016ء کو نجی شعبے کو دیئے جانے والے قرضے 299.7 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں ۔
5۔مالی سال 2012-13ء میں زرعی شعبہ کو دیئے جانے والے قرضوں کا حجم 336.2 ارب روپے تھے جسے مالی سال 2014.15ء میں بڑھا کر 515.9 ارب روپے کردیا گیا۔ رواں مالی سال 2015-16ئکے لئے یہ ہدفت 600 ارب روپے ہے۔
6۔مالی سال 2012-13ء میں ترقیاتی اخراجات کا حجم 348 ارب روپے تھا ‘ مالی سال 2014-15ء میں یہ حجم بڑھ کر 502 ارب روپے ہوگیا۔ رواں مالی سال کے دوران ترقیاتی اخراجات کے لئے 700 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
7۔مالی سال 2012-13ء میں ترسیلات کا حجم 13.9 ارب ڈالرز تھا۔ جو مالی سال 2014-15ء میں بڑھ کر 18.7 ارب ڈالر ہوگیا۔ رواں مالی سال کے دوران 29 فروری 2016ء تک 12.7 ارب ڈالر کی ترسیلات ہوئیں۔
مالیاتی استحکام نے قرضوں کی راہ ہموار کی اور(مجموعی پیداوار) جی ڈی پی کے درمیان شرح میں کمی کی۔ مالی سال 2012-13ء کے دوران یہ شرح 64 فیصد تھی جو مالی سال 2014-15ء کے آخر تک کم ہو کر 63.5فیصد رہ گئی ۔ آئندہ تین مالی سال کے دوران ہمارا ہدف قرضوں اور جی ڈی پی کے درمیان شرح کو مالیاتی ذمہ داری اور قرضوں کی حدود کے ایکٹ (ایف آر ڈی ایل اے) کے تحت اقدامات کے ذریعے اور قرضوں اور مالیات کی دانشمندانہ مینجمنٹ کے ذریعے 60 فیصد یا اس سے بھی کم کی سطح پر لانا ہے۔ اس سارے پس منظر میں قرضوں کی مینجمنٹ پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی اگرچہ گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں تسلسل کے ساتھ رہنے والے مالیاتی اور بجٹ خسارے کے باعث مجموعی قرضوں میں اضافہ ہوا۔ ہماری حکومت کا وژن ہے کہ آئندہ 15سال کے دوران قرضوں کی حد کو موجودہ 60 فیصد سے کم کرکے 50 فیصد تک لایا جائے اس مقصد کے لئے اقدامات کا آغاز مالی سال 2018-19ء میں وفاقی سطح پر مالیاتی خسارے میں 4 فیصد کمی کے لئے ایف آر ڈی ایل اے میں ضروری ترامیم کے لئے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کرکے کیا جائے گا۔ان کامیابیوں کے باجود حکومت کے بدخواہ ملکی قرضوں کی صورتحال کے حوالے سے مسلسل شکوک و شبہات پیدا کررہے ہیں اس لئے ریکارڈ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
30 جون 1999ء کو پاکستان کی مجموعی حکومتی قرضے 2946 ارب روپے تھے جن میں سے اندرونی قرضے 1389 ارب روپے اور بیرونی قرضے 1557 ارب روپے تھے۔ 31مارچ 2008ء کو مجموعی حکومتی قرضے 5800 ارب روپے تھے جن میں 3020 ارب روپے کے مقامی قرضے بھی شامل تھے جبکہ ان قرضوں میں بیرونی قرضوں کا حجم 2780 ارب روپے تھا،مالی سال 2012-13 ء کے اختتام تک حکومتی قرضہ مزید بڑھ کر14318ارب روپے تک پہنچ گیا،سابقہ حکومت نے 2008ء سے 2013ء کے دوران 8518ارب روپے کے قرضے کے معاہدے کئے۔
پاکستان کو مسلسل مالیاتی خسارے کا سامنا رہا،2012-13ء کیلئے ملک کے مالیاتی خسارہ کا جی ڈی پی کے 8.8 فیصد تک رہنے کا اندازہ لگایا گیا اور2012-13ء کے آخری مہینے میں ایک بڑی کوشش کے نتیجہ میں اسے 8.2 فیصد تک لایا گیا۔ مالیاتی خسارے کی اتنی بڑی شرح غیر پائیدار ہونے کے باعث اقتصادی ترقی متاثر ہوتی ہے اور مالیاتی خلاء کو پر کرنے کیلئے بھاری مقدار میں قرضے حاصل کرنے پڑتے ہیں۔
موجودہ حکومت کو اپنے پہلے مالی سال2013ء میں 14318.4ارب روپے کا قرضہ ورثے میں ملا جس میں48ارب 13کروڑ ڈالر (4ہزار796.5 ارب روپے ) کا غیرملکی قرضہ اور 9521.9ارب روپے کا ملکی قرضہ شامل تھا۔جولائی 2013ء سے دسمبر2015ء کے عرصے کے دوران مجموعی حکومتی قرضہ 18467.3ارب روپے تک پہنچ گیا جس میں 53.36ارب ڈالر(5ہزار589.2ارب روپے ) کا غیرملکی قرضہ اور 12 ہزار 878.1ارب روپے کی ملکی سرکاری قرضہ شامل ہے۔ اس طرح مجموعی حکومتی قرضہ میں 4 ہزار 148.9 ارب روپے کا اضافہ ہوا جس میں 5ارب 23کروڑ ڈالر کا غیرملکی قرضہ بھی شامل ہے۔
ہماری حکومت نے مالیاتی خسارے پر قابو پانے میں کامیاب رہی جس کی وجہ سے ہم نے کم سے کم قرضہ لیا اورجس کیلئے مالیاتی نظم وضبط کا نفاذ کیا گیا۔ہماری حکومت کے پہلے تین مالی سالوں میں مالیاتی خسارے کے کم ہدف کے حصول کیلئے کوششیں کی گئیں۔ (جاری)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024