مکرمی! 8 فروری 2014ء کو نوائے وقت میں سعید آسی کے کالم ’’بنا ہے عیش تجمل حسین خان کیلئے‘‘ سے آگے ریل کے کھچا کھچ بھرے ڈبے میں مجھے بہرحال جگہ بنانی ہے اور بعد میں کوشش کرنے والے کو بتانا ہے کہ یہاں پہلے ہی بہت زیادہ بھیڑ ہے اور بقول شاعر ’’غریب کو وہ امیر بناتا ہے - یہ تو میری جب سے جیتا ہے‘‘ غریب کا غریب ہی ویری ہوتا ہے امیر نہیں، کہ برابری جو نہیں۔ ٹکر برابر والوں سے ہوتی ہے۔ آج کا غریب امیر ہونے پر خود بخود نواز شریف کی کلب میں شامل ہو جائے گا کہ انسانی فطرت ہے۔ پیسے کم ہونے سے کوئی غریب نہیں ہوتا، ہم عقل کے غریب نہ ہوں۔ علامہ اقبال مثال ہیں ’’کہ جہاں میں نانِ شعیر یہ ہے مدارِ قوت حیدری‘‘ کسی بھی کالم نویس کو خامیوں کی نشاندہی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بامعنی بات ’’ضمیروں سے آگے‘‘ شروع ہوتی ہے۔ انسانی فطرت کی خامیوں کا توڑ قرآن میں موجود ہے جسے خوبصورتی سے حوالہ بنانا ہمیں زیب دیتا ہے اور بلاشبہ یہ نسبت ہی باعث برکت ہے۔ خدا کو ساتھی بنانا سعادت بھی ہے کامیابی بھی۔ دنیا خود غریب امیر کا آمیزہ ہمیشہ سے ہے اور اللہ اسے معیوب نہیں بتاتا کہ ’’تو بھی رانی میں بھی رانی۔ کون بھرے گا پانی‘‘۔(معین الحق۔ 266 پی، ماڈل ٹائون۔ لاہور)
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024