موجودہ حالات میں پاکستان کی ریاست اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ آج قومی افق پر موت کے خوف کے بادل منڈلارہے ہیں۔ ملک میں امن و امان تباہ ہے، معیشت کا پہیہ جام ہے جس کی وجہ سے روزگار کے مواقع بھی دریافت نہیں ہو رہے ۔ ملک کی ثقافت بھی خطرے میں ہے، اور فنون لطیفہ جیسے ادب، شاعری، موسیقی اور فلم انحطاط پذیر ہیں۔جبکہ شدت پسند آئین کی بالا دستی کے اصول سے انحراف کررہے ہیں اور پارلیمان کو مقتدر ادارہ بھی نہیں مانتے ہیں۔ وہ ہمارے طرز زندگی کو ارتداد کے زمرے میں لیتے ہیں،وہ ہماری سوچ کی آزادی پر قدغن لگانا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں نوجوانوں میں قنوطیت فروغ پارہی ہے۔
جب نوجوانوں میں مایوسی کی لہر پھیلنے کاخوف ہو تو نوجوانوں میں امید پیدا کرنے کے لیے یوتھ فیسٹول کا آغاز کیا گیاتا کہ نوجوانوں میں اپنے خوابوں کی دنیا آباد کرنے کی جرات پیدا ہو۔اُن میں تخلیقی قوت سے اپنی منزل پانے کا حوصلہ پیدا ہو اور اُن میں ٹیم ورک کی روح سے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ جب وزیراعلیٰ پنجاب نے پچھلے سال صوبے کے نوجوانوں کو متحرک کرنے کا ویثرن دیا تھا اُس وقت یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے یوتھ فیسٹول کا انعقاد ہوگا۔جس کا گنیز بک ورلڈ ریکارڈ سرٹیفیکٹ جاری کرے گا۔ پنجاب سپورٹس بورڈ کے روایتی تنظیمی ڈھانچے میں جان نہیں تھی مگر وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے پنجاب سپورٹس بورڈ کی ساختی اصلاحات کے ذریعے استعداد کا ر بڑھانے کے لیے لائحہ عمل مرتب کیا۔ جس کی وجہ سے پنجاب کا شاید ہی کوئی دیہات ہو جہاں یوتھ فیسٹول کی بازگشت پیدا نہ ہوئی ہو۔آج پنجاب میں یوتھ فیسٹول نوجوانوں کی منظم تحریک کا نام ہے۔سندھ اور خیبر پختونخواہ میں اس طرز کے کلچرل فیسٹول اور ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کا انعقاد یوتھ فیسٹول کی کامیابی کی علامت ہے۔یوتھ فیسٹول پنجاب میں سپورٹس انقلاب کا پیش خیمہ ہے اس کے ذریعے تمام کھیلوں میں نیا ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آرہا ہے جو مستقبل میں دنیا میں ملک کا نام روشن کرئے گا۔یہی وجہ ہے پنجاب کابینہ کی سوچ یوتھ فیسٹول کو قانونی تحفظ دینے کی ہے۔جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب کا ویثرن یوتھ فیسٹول کے لیے ایسے نظام کا ارتقاء ہے جس میں اس کو ادارجاتی رنگ دیا جائے یہی وجہ ہے وزیراعلیٰ پنجاب نے لاہور سپورٹس سٹی کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔جہاں پر نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت کے لیے سپورٹس یونیورسٹی اور ورلڈ کلاس سپورٹس اکیڈمیاں بنانے کا ارادہ ہے۔ وزیراعلیٰ کے اس خواب کو پورا کرنے کے لیے پنجاب سپورٹس بورڈ شبانہ روز محنت کررہا ہے۔بہرحال یوتھ فیسٹول مثبت تنقید سے بالا تر نہیں ہے ، پاکستان کی ریاست اور ثقافت کے موجودہ خدوخال کے تناظر میں یوتھ فیسٹول کا تنقیدی جائزہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یوتھ فیسٹول کے دائرہ کار میں وسعت کے امکانات موجود ہیں ۔مثال کے طور پر یوتھ فیسٹول کا بنیادی فلسفہ تو نوجوانوں میں انتہاء پسندی کا خاتمہ ہے۔ لیکن کیا یہ تضاد نہیں کہ یوتھ فیسٹول روایتی مدارس کے طلبا کے لیے مساوی مواقع پیدا نہیں کررہا؟ کیا پنجاب حکومت کے اس رویے سے مدارس کے طلباء کی قومی دھارے میں آنے کی امید ہے؟اس کے علاوہ مغرب کی ثقافتی یلغار نے ریاست کے ایک طبقے میں مذہبی جنونیت کو فروغ دیا ہے اب اُس طبقے کی سوچ یہ ہے کہ دین اور تہذیب سامراجی قوتوں کی جنگ کا ہدف ہیں۔حالانکہ مذہبی طبقے کی اس خام خیالی نے اُس میں جارحانہ انداز پیدا کردیا ہے۔ آج مذہبی جنونیت مقامی ثقافت کو یرغمال بنارہی ہے ۔ان حالات میں یوتھ فیسٹول مغرب کی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں پنجاب کے روایتی کھیلوں جیسے کبڈی اور کشتی کو تو فروغ دے رہا ہے۔جدید دور میں سرکاری سطح پر سپورٹس کی سرپرستی نہ کرنا حکومت کی غفلت کے زمرے میں آتا ہے ۔ پاکستان کی 67سالہ تاریخ میں سپورٹس کے شعبے کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ تاریخی اعتبار سے کسی بھی وفاقی یا صوبائی حکومت نے سپورٹس کو فروغ دینے کے لیے پالیسی سازی نہیں کی۔ یوتھ فیسٹیول سپورٹس کی حکومتی سرپرستی کی طرف پہلا قدم ہے۔ علاوہ ازیں ستم ظریفی یہ ہے کہ دہشت گردی کے ناسور نے جہاں پاکستان میں نظام زندگی کے ہر شعبے کو مفلوج کیا وہاں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد سے پاکستان کے کھیل کے میدان عملاً ویران تھے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب یوتھ فیسٹیول کے انعقاد سے دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں سپورٹس دہشت گردوں کے نشانے پر نہیں ہے شاید اس طرح پاکستان کی سپورٹس کے شعبے میں بین الاقوامی تنہائی کا خاتمہ ہوجائے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38