طالبان سے مذاکرات کا دوسرا مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔ طالبان کمیٹی کے دو ارکان اور حکومتی کمیٹی کے ایک رکن نے شمالی وزیرستان جاکر طالبان شوریٰ کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے اس ملاقات میں مذاکرات کے مقام اور مطالبات پر تبادلہ¿ خیال ہوا۔ مولانا سمیع الحق طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں کلیدی کردار ادا کرہے ہیں وہ ایک جہاندیدہ اور تجربہ کار مذہبی و سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ پاکستان کی سیاسی ومذہبی تحریکوں میں بڑے فعال رہے ہیں ان کی دلی خواہش ہے کہ پاکستان میں امن قائم ہوجائے اور مذاکرات نتیجہ خیز ہوں۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان امن زون قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ حکومت اور طالبان بلاخوف مذاکرات کرسکیں۔ حکومت اور طالبان کی جانب سے ایسے مطالبات ہی پیش کیے جارہے ہیں جو اعتماد سازی کے لیے ضروری ہیں۔ حکومت نے مطالبہ کیا ہے کہ طالبان قیدیوں (ڈاکٹر اجمل، سلمان تاثیر اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں) کو رہا کردیں۔ دہشت گردی کی کاروائیوں کو رکوائیں جو گروپ ان کے زیر اثر نہیں ہیں ان کی نشاندہی کریں کیونکہ دہشت گردی اور مذاکرات اکٹھے نہیں چل سکتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق طالبان نے کوئٹہ اور پشاور کے خودکش حملوں کی ذمے داری قبول کرنے والے گروپ احرار الہذ کی تحقیقات شروع کردی ہے۔ دوسری جانب طالبان کے مزاج اور نفسیات کے ماہر تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ خودکش حملے طالبان کی آشیرباد سے ہورہے ہیں جن کا مقصد حکومت کو دباﺅ میں رکھ کرطاقت کی بنیاد پر اپنے مطالبات تسلیم کرانا ہے۔
مذاکرات کے مقام کے تعین پر حکومت اور طالبان کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔ حکومت چاہتی ہے کہ طالبان حکومتی کنٹرول کے علاقے میں مذاکرات کریں تاکہ وہ حکومتی نمائندوں کو یرغمال نہ بنالیں جبکہ طالبان کو اندازہ ہے کہ وہ زبردست اور تباہ کن دہشت گرد حملوں میں ملوث رہے ہیں اس لیے حکومت ان کے نمائندوں کو قتل بھی کرسکتی ہے لہذا ان کی خواہش ہے کہ مذاکرات ان کے زیر اثر محسود قبائل کے علاقے میں ہوں۔ طالبان کمیٹی کے ارکان کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ دونوں فریقوں کی مرضی کے مطابق حل کرلیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس قدر خون بہہ چکا ہے کہ اعتماد سازی میں بھی وقت لگے گا۔ امن زون کے قیام سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ طالبان نے ابتدائی مرحلے پر دومطالبات کئے ہیں پہلا یہ کہ قبائلی علاقے سے فوج نکالی جائے۔ حکومت نے یہ مطالبہ مسترد کردیا ہے کیونکہ اس مرحلے پر فوج کی پوزیشن پر کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی کا سوال اس وقت سامنے آئے گا جب کامیاب مذاکرات کے بعد عملی طور پر ثابت ہوجائے گا کہ طالبان نے دہشت گردی ہمیشہ کے لیے ترک کردی ہے۔ طالبان کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ان کے ایسے قیدیوں کو رہا کیا جائے جو دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث نہیں ہیں جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان نے ایسے 300 قیدیوں کی فہرست مولاناسمیع الحق کو پیش کی ہے جو وزیرداخلہ کو دے دی گئی ہے۔ پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ خواتین اور بچے سکیورٹی فورسز کی تحویل میں نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ طالبان کے 300 قیدی بھی لاپتہ ہوگئے ہیں۔ تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وزیردفاع کے بیانات مذاکرات کے لیے نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔ فوج کے حراستی مراکز فاٹا میں موجود ہیں اور حکومت کنفیوژن کا شکار ہے۔
پروفیسر ابراہیم سنجیدہ اور مخلص شخصیت ہیں۔ ایک بار پائنا کے اجلاس میں ان سے ملاقات ہوئی تھی جس کا اہتمام بزرگ صحافی جناب الطاف حسن قریشی نے کیا تھا۔ پروفیسر صاحب کی بے ساختہ گفتگو نے شرکاءکو متاثر کیا تھا ان کی رائے درست ہے کہ حکومت کو خواتین اور بچوں کو رہا کرکے اپنی گڈول کا اظہار کرنا چاہیئے۔ اس اقدام سے حکومت اور طالبان کے درمیان اعتماد پیدا ہوگا۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ اگر حکومت احرالہذ کے خلاف کاروائی کرے تو طالبان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ طالبان نے بھی اس گروپ کے خلاف تحقیق شروع کردی ہے۔ طالبان کے مطابق سیز فائر کے دوران خودکش حملے کرنے والے گروپ پاکستان دشمن قوتوں کے ایجنٹ ہوسکتے ہیں جو قیام امن کے خلاف ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان جذباتی سیاستدان ہیں انہوں نے طالبان کو خیبرپختونخواہ میں دفتر کھولنے کی پیشکش کردی ہے۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ طالبان کے دفتر کا قیام ابھی قبل از وقت ہے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا مشکل مرحلہ اس وقت سامنے آئے گا جب طالبان دہشت گردوں کے خلاف مقدمات ختم کرنے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کریں گے۔ افواج پاکستان ایسے دہشت گردوں کو رہا کرنے کے لیے کبھی تیار نہ ہوں گی جنہوں نے فوجیوں کو شہید کیا اور فوجی تنصیبات پر حملے کیے البتہ معصوم اور بے گناہ شہریوں کے قاتلوں کی رہائی پر سمجھوتہ ہوجائے گا کیونکہ پاکستان میں عام شہری کے خون کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے اور پاکستان کا کمزور ترین طبقہ عوام ہی ہیں۔
پاکستان کی ریاست ابھی تک مکمل اور منظم ریاست نہیں بن سکی۔ ریاستی قانون کی عملداری ابھی بہت دور کی بات ہے۔ قانون کی طاقت کے بجائے طاقت کا قانون چل رہا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک جاگیرداروں سے سیاسی اور معاشی طاقت چھین کر ان کو ریاست کی طاقت کے تابع نہیں کردیا جاتا۔ جاگیردار ریاست اور شریعت کے قانون کی بجائے رسم و رواج اور کلچر کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ شکار پور میں پسند کی شادی کرنے پر دوخواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا حالانکہ اسلام پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے۔ مفسرین اور شارحین کا اس پر اتفاق ہے مگر جاگیردار اپنی جاگیروں کے زور پر خدا اور رسول کے پیغام کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جاگیرداروں نے شکار پور میں آئین اور قانون کے برعکس ایک جرگہ کیا جس میں لڑکیوں کے قاتلوں کو معاف کردیا گیا۔ پسند کی شادی کرنے والے دونوجوانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ قتل سے بچنے کے لیے جرگے کو 24 لاکھ روپے اور پولیس کو 4 لاکھ روپے ادا کریں۔ یہ جرگہ رکن قومی اسمبلی غوث بخش مہر کی سرپرستی میں ہوا۔ یہ ایک انتہائی شرمناک واقعہ ہے اور جرگہ کرنے والوں کو نشان عبرت بنانے کا تقاضہ کرتا ہے مگر ریاستی قانون جرگہ کرنے والے بااثر اور طاقتور افراد کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔ حکومت، فوج اور بیوروکریسی کے طاقتور افراد بھی چونکہ جاگیردار اور سرمایہ دار طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے اسلام اور ریاست کے قوانین کا مذاق اُڑانے والے محاسبے سے بچ جاتے ہیں اور خواتین ظلم و ستم اور جبروتشدد کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔ کاش ظالم اور سنگدل جاگیردار لاپتہ ہوجائیں یا طالبان ہی ان شریعت کا مذاق اُرانے والوں کو ٹارگٹ کریں تاکہ پاکستان میں صحیح معنوں میں قانون کی حکمرانی کا خواب پورا ہوسکے مگر طالبان تو خود آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔نوائے وقت کی دیرینہ قاری پختہ خاتون شاعرہ نسرین شوکت کے منفرد، دلچسپ اور معیاری شعری مجموعے ”خوابوں کے سلسلے“ سے چند حسبِ حال اشعار نذر قارئین ہیں....
آج پھر وقت کی آندھی سے بجھے جاتے ہیں
کتنے ارماں سے جلائے تھے بہاروں کے دئیے
جانے کب آبلہ پاﺅں کا سفر طے ہوگا
کب تلک جادہ¿ِ پُر خار پہ چلنا ہو گا
اے راہر وانِ راہ وفا بے خطر چلو
منزل کٹھن ہے آبلہ پاء مگر چلو
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38