اس سال موسم سرما کی بارشیں خوب ہوئیں۔ دسمبر 2012سے شروع ہو کر فروری 2013 کے آخر تک چلتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ کی زبردست مہربانی رہی پانی جیسی نعمت سے ہم خوب مستفید رہے مگر ہمیں یہ نہیں پتہ کہ ان موسم سرما کی بارشوں میں منگلا، تربیلا اور وارسک ڈیم سے نچلے علاقے میں جو پانی جل تھل کرتا رہا وہ کہاں گیا۔ ابھی تک موسمیات کے تجزیہ کار میڈیا پر نہیں آئے کہ پتہ چلے کتنے ملین ایکڑ فٹ پانی بحیرہ عرب میں غرق ہو کر ضائع ہو چکا ہے۔
حال ہی میں کالا باغ ڈیم بننے کے خلاف شوروغوغہ اٹھا مگر اب عوام کی توجہ آنے والے الیکشن کی طرف مبذول ہو گئی ہے۔ اسی اثنا میں رب جلیل نے اپنی بے پناہ موسم سرما کی باران رحمت فرما دی۔ پہاڑوں کی چوٹیاں خوب صورت اور سفید ہو گئیں۔ سیر سپاٹے کرنے والے امیر کبیر لوگ ان خوب صورت سفید چوٹیوں کے تذکرے کرتے نہیں تھکتے۔یہی سفید چوٹیاں گرمیوں میں پگھلنے والی برفوں کا پانی نیچے کی طرف روانہ کریں گی۔ ہم بے شک ڈیم نہ بنائیں۔ اللہ جل شانہ کی برسائی ہوئی برفوں سے گرمیوں میں پانی ملتا رہے گا۔ ہم شاید اللہ کے چنے ہوئے لوگ ہیں اور وہ جانتا ہے کہ ہم بہت کاہل ہیں ہم بحث بہت کرتے ہیں اور ڈیم نہیں بناتے۔ ہمیں اللہ ہی بچاتا ہے۔
اب ذرا سوچیں کہ وسط مارچ گزرگیا ہے۔ موسم سرما کی باران رحمت برس برس کر رخصت ہو چکی ہیں۔ دھوپ میں تمازت بڑھتی چلی جا رہی ہے، سندھ کے کسان اور وڈیروں کے ہاری اپنی گندم کی کٹائی سے فارغ ہو کر اپنی اگلی فصل کی بوائی کے لےے فکر مند ہیں لیکن بوائی کے لےے پانی نہیں ہے۔ ڈیم تو اپنی نچلی سطحوں کو پہنچ رہے ہیں پانی کہاں ہے؟۔ سندھ کے علاقے تھرپارکر میں پانی کی شدید قلت ہو رہی ہے۔ قحط پڑنا شروع ہو گیا ہے، تھاری بھائیوں کے جانور مرنا شروع ہو گئے ہیں اور کچھ تھاری بھائی بھی مر رہے ہیں۔ تھاری بھائی اپنے ڈھور ڈنگر اور خاندان لے کر ہجرت پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ہمارے سیاسی قائدین چمکیلی لینڈ کروزروں کے جلوس لے کر چہروں پر تھاری بھائیوں کے لےے حسرت و یاس کی تصویریں سجائے تھر صحرا کے علاقے میں گھومنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ اگر ہم موسم سرما کی بارشوں میں سے کچھ حصہ ڈیموں میں ذخیرہ کر لیتے تو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ ایسے خوف ناک گرم اور خشک سالی کے مہینوں میں قحط کے ڈر سے حکومت سندھ ارسا (IRSA) سے درخواست کرتی ہے کہ پنجاب حکومت سے انکو پانی ادھار لیکر دیا جائے۔ پنجاب حکومت بہت خوش دلی سے پانی ادھار دینا شروع کر دیتی ہے۔ سندھ حکومت کی کچھ حد تک جان میں جان آتی ہے۔ اگلی فصل کی بوائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔اسی اثنا میں اللہ تعالیٰ کی برسائی ہوئی برفیں پگھلنا شروع ہو جاتی ہیں اور ان خوب صورت سفید چوٹیوں سے پانی نچلے علاقے کی طرف چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ڈیموں کی سطحیں اوپر بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں اور پانی آب پاشی کے لےے میسر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ جون کے تیسرے یا چوتھے ہفتے مون سون کی بارشیں آن پہنچیں گی اور برفوں کے پانی کے ساتھ مل کر سیلاب کا سا سماں بننا شروع ہو جائے گا۔
2010کا سیلاب وہ کیسا سماں تھا؟ جولائی 2010ایک مہیب سیلاب نے پاکستان کو کاری ضربیں لگائیں۔ پانی کی سخت طوفانی لہریں آرہی تھیں سیلابی پانی کے سخت تندوتیز دھارے پہاڑی تنگ گزر گاہوں سے گڑگڑاتے ہوئے نکلتے ہی اپنی آبی گزرگاہوں کے کناروں سے میل ہا میل پر پھیل کر تباہی اور بربادی پھیلاتے ہوئے اپنے آگے آنے والی ہر چیز گاﺅں، مکانات، فصلات وغیرہ کو تاخت و تاراج کرتے ہوئے جنوب کی طرف سمندر کو رواں دواں تھا۔یہ غارت کن طوفانی سیلابی دھارے پہاڑوں سے نمودار ہو کر انتہائی وحشت ناک انداز سے گاﺅں والے لوگوں کے مال مویشی، گھریلو سامان اور انسانوں کو بھی بہائے لےے جا رہے تھے۔ ٹی وی پر یہ خوف ناک نظارے سب پاکستانی بھائیوں نے دیکھے۔ دراصل سزا تو بے چارے گاﺅں کے کسانوں، کسان مزدوروں اور ان کے خاندانوں کو ملی۔
ان بپھری ہوئی طوفانی لہروں کے آگے سیلابی بندوں کو یا تو اس سیلابی پانی نے توڑا یا قصداً کسی نے کبھی ادھر سے توڑا یا کبھی ادھر سے توڑ ڈالا۔ یہ مہیب لہریں سب کے لےے ہی (یعنی چھوٹے شہر اور دیہات) سخت ڈراﺅنی تھیں مگر کسان مزدوروں اور ان کے خاندان انتہائی سخت نقصانات سے دوچار ہوئے۔ ان میں اس قدر بے کراں بے چینی پھیلی کہ جس کے برے اثرات ابھی تک چل رہ ہیں۔ ابھی تک اس خوف ناک سیلاب کے نقصانات پورے نہیں ہوئے۔
یہ سب ڈراﺅنے اور تکلیف دہ مناظر دیکھ کر پاکستانی قوم نے اپنا روایتی حب الوطنی کا رویہ دکھلایا۔ شہروں اور دیہاتوں سے یہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے سیلاب زدگان بھائیوں کے لےے جانثاری کی اور ایثار کا بے نظیر نمونہ قائم کیا۔ وہ جو ہمارے سیاسی قائدین اپریل مئی کی خشک سالی میں چمکیلی لینڈ کروزروں کے جلوس لے کر صحرائے تھر میں گھوم رہے تھے اور چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں کہ پانی تو ہے ہی نہیں بلکہ زیر زمین پانی بھی ندارد ہوتا چلا جا رہا ہے۔تو ڈیم کہاں بنائیں اور اب یہ حضرات ہیلی کاپٹروں میں سوار ہو جاتے ہیں کہ دیکھیں دھاڑتی چنگھاڑتی طوفانی لہروں میں ہمارے کسان، مزدور اور ان کے خاندان، ڈھور ڈنگر زیادہ پانی میں کیسے مرتے ہیں۔ جب اپریل مئی میں خشک سالی ہوتی ہے تو ہمارے پاس بہت ہی کم جمع کیا ہوا پانی ہوتا ہے۔ سندھ گورنمنٹ پنجاب سے پانی ادھار پر لیتی ہے اور واپس کرنا بھول جاتی ہے۔ صرف تین مہینے بعد ہی جولائی، اگست میں اتنے بے تحاشہ پانی میں ہم ڈوب رہے ہوتے ہیں تو ہمیں یاد آتا ہے کہ اگر ہم نے ڈیم بنائے ہوتے تو ہم اس طرح باری تعالیٰ کی ایسی بے کراں رحمتوں میں ڈوب نہ رہے ہوتے۔ اپریل، مئی، جون کی خشک سالی نے بار بار ہم پر پانی کی اہمیت ثابت کر دی ہے۔ جولائی اگست سیلابوں نے ہمیں بار بار تھپیڑے مارے ہیں۔ ہم میں سے بہت زیادہ اصحاب اہل علم و دانش ہیں پھر بھی ہم نہیں سمجھتے۔ ہم چل رہے زمانے میں عقل کی باتیں کرتے جاتے ہیں مگر ہائے شومئی قسمت تین مہینے آگے نہیں سوچ پاتے۔ مرتے تو کسان لوگ ہی ہیں۔
مجھے کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024