بادامی باغ کا واقعہ : پنجاب پولیس کی نئی رپورٹ بھی مسترد‘ پتہ چل جائیگا کالونی والے پلاٹ میں کس کی دلچسپی ہے : چیف جسٹس
اسلام آباد (آئی این پی+ نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے بادامی باغ کے واقعہ کا ازخود نوٹس کیس میں پنجاب پولیس کی جانب سے نئی پیش کی گئی تحقیقاتی رپورٹ بھی مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاملے کی اصل جڑ سامنے لائی جائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہاکہ جوزف کالونی واقعہ پر پولیس سمیت کوئی بھی اصل وجہ جاننے کی کوشش نہیں کررہا۔ تحقیقات کے بعد سب پتہ چل جائیگا کہ جوزف کالونی والے پلاٹ میں کس کی دلچسپی ہے۔جوزف کالونی کے رہائشیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری پولیس کی ہے۔ پولیس اب تک دیانتدارانہ اور شفاف تحقیقات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عدالت نے مقدمہ کی سماعت 25 مارچ تک ملتوی کر دی۔ جوزف کالونی کے رہائشیوں نے مقدمہ میں فریق بننے کیلئے درخواست عدالت میں دیدی۔ پیر کو چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس گلزار اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے سانحہ بادامی باغ ازخود نوٹس کی سماعت کی ۔ اس موقع پر پولیس حکام نے عدالت میں سانحہ بادامی باغ کی نئی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی جس کو سپریم کورٹ نے ایک مرتبہ پھر مسترد کردیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ صرف فیس سیونگ کیلئے جوڈیشل انکوائری کرائی جاتی ہے،گوجرہ واقعہ پرجوڈیشل کمشن نے جس افسر کیخلاف سفارش کی وہ اپنی جگہ تعینات رہا، جب سفارشات پر عمل کرنا ہی نہیں تو اپنے انکوائری افسر کیوں فراہم کریں، جوڈیشل کمشن سفارشات پر عمل نہ ہونے سے جوڈیشل افسر کو شرمندگی کا سامنا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی جانب سے کئے جانے والے اس مطالبہ کے بعد دیئے جس میں انہوں نے کہا کہ واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے، اصل وجہ پتہ چل جائے گی۔ دوران سماعت عدالت نے حکم دیا کہ جوزف کالونی کے رہائشیوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ جوزف کالونی کے رہائشیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری پولیس کی ہے تاہم پولیس اب تک دیانت دارانہ اورشفاف تحقیقات کرنے میں ناکام رہی ہے۔اس موقع پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جوزف کالونی واقعہ پر پولیس سمیت کوئی بھی اصل وجہ جاننے کی کوشش نہیں کررہا ہم سماعت کر کے چلے جاتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ علاقہ خالی کراکے کسی کو دینے کے کوئی شواہد یا ثبوت نہیں ملے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بیان دیا کہ سی سی پی او نے موقع پر جاکر معائنہ نہیں کیا اور غفلت برتی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کمانڈ ہونی چاہئے، آئی جی کہاں تھے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ درخواست پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا یہ بتائیں کہ جوزف کالونی کو کتنے راستے جاتے ہیں۔ پولیس حکام نے بتایا کہ جوزف کالونی کو صرف دو راستے جاتے ہیں، باقی اطراف سے بند ہے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ اگر بیرئیر لگا کر پولیس کی نفری کھڑی کردیتے تو کیا کوئی اندر داخل ہوسکتا تھا۔ اس کیلئے تو اضافی نفری کی بھی ضرورت نہ ہوتی۔ اسے تھانے کی پولیس ہی نمٹ لیتی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا علاقہ خالی کراکے کسی کو دینے کے کوئی شواہد یا ثبوت نہیں ملے۔ عدالت نے بادامی باغ کیس کی تحقیقات نئے سی سی پی او محمد املیش کو سونپ دیں۔ محمد املیش نے عدالت کو بتایا کہ پرانے سی سی پی او کو تبدیل کردیا گیا ہے، حال ہی میں چارج سنبھالا ہے مجھے تفتش کیلئے کچھ مہلت دی جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پاکستان میں ایک مافیا ہے، کون زمینیں چھوڑتا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا میونسپل کارپوریشن کے ریکارڈ کے مطابق علاقے میں 23 گودام ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہم سیشن جج کو انکوائری کا کہیں تو وہ کل بتادیگا کہ اصل واقعہ کیا ہے۔ متاثرین اب تک خیموں میں ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ 50 گھروں کی تعمیر مکمل ہوگئی ہے، متاثرین کو خوراک بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں اور کوئی انہیں نہیں پوچھے گا۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ وہ کون لوگ تھے جو علاقے میں آئے اور بلوہ کیا؟ ایڈووکیٹ منیر چاکر نے کہا کہ جوزف کالونی کے رہائشیوں کو اب بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔ مکانوں کی بحالی کے بعد بھی رہائشی وہاں رہنے کو تیار نہیں۔ رہائشیوں کو اب بھی خطرہ ہے۔ انکے خلاف نفرت کا جذبہ اب بھی موجود ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا اگر ایسی کوئی بات ہے تو ہمارے ساتھ شیئر کریں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دئیے اب تو واقعہ کو کافی عرصہ گزر گیا، تحقیقات مکمل ہوجانی چاہئے تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا پولیس رپورٹ سے تو لگتا ہے جہاں سے چلے تھے اب بھی وہیں کھڑے ہیں۔ موجودہ حالات میں یقیناً لوگوں کو خطرہ ہوگا۔ ایس پی بابر بخت نے عدالت کو بتایا کہ موقع کے گواہ شفیق دو سے تین مرتبہ ملزم کو قتل کرنے کی نیت سے اسکے گھر گیا، اسے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ شفیق نے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں بھڑکایا۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا اگر کسی نے توہین رسالت کی ہے تو اسے سزا ملنی چاہئے، پوری برادری کو نہیں۔ قائم مقام آئی جی پنجاب نے کہا مجھے اس واقعہ کا علم 9 مارچ کی صبح ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا واقعہ 7 مارچ کو ہوا، آئی جی دو دن بے خبر رہے۔ آپ کیسے آئی جی ہیں، پوری دنیا کو پتہ چل گیا اور آپ بے خبر رہے۔ یہ کہہ کر آپ کیس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ پولیس اب تک دیانتدارانہ شفاف تحقیقات کرنے میں ناکام رہی۔ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا ذمہ دار کون ہے، یہ بھی نہیں بتایا گیا۔
سانحہ بادامی باغ کیس