ریڈیو پاکستان کا ملالہ یوسفزئی کو خراج تحسین
اصغر ملک
ریڈیو پاکستان کے قریباً سارے اسٹیشنوں سے مورخہ 7 تا 8 مارچ 2013ءکو (حرف ہمارے تیرے نام) کے پرومو ہرگھنٹے بعد نشر ہوتے سنا تو پتہ چلا ریڈیو پاکستان نے قومی اور صوبائی سطح پر مقابلہ شاعری اور خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے زیڈ اے بخاری آڈیٹوریم سے 8 مارچ 2013ء شام سات بجے شب سے خبروں کے علاوہ رات نو بجے تک ملالہ یوسف زئی جس نے اپنے علاقے اور تعلیم کی شمع روشن رکھنے کے لئے گل مکئی کے نام سے فیچر لکھا کہ پاکستان کا نام روشن کرنے کے لئے دیار غیر کے ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر کروائے اور یہ ثابت کیا کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بھی بڑے بڑے ذہین، قابل لوگ اور بچے موجود ہیں لیکن شو مئی قسمت کچھ حاسد لوگوں کو ملالہ یوسف زئی کی عزت، شہرت اور قابلیت پر فخر کرنے کی بجائے حسد کی آگ میں جلتے ہیں کانٹے خوشبو گلوں سے آ رہی ہے۔ وہاں کے کچھ حاسد لوگوں نے کہ ہمارے ہوتے ہوئے ایک سکول ماسٹر کی چودہ سالہ لڑکی کی تحریریں یورپی ممالک کے ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر ہونا شروع ہیں لہذا اس بچی کو اسکول سے واپسی گھر آتے ہوئے دوسری کلاس فیلوز سے اس کا نام پوچھ کر گولی مار دی گئی اور اس حادثہ کی خبریں جب الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع اور نشر ہونا شروع ہو گئیں تو پاکستان کا ہر گھر غمزدہ ہو گیا کہ بچیوں کو تعلیم دلوانا کیا غیر قانونی، یا مذہب کے خلاف ہے بلکہ اسلام میں تو سب سے زیادہ زور تعلیم پر ہی دیا گیا ہے کہ یہ مومن کی گم شدہ میراث ہے جہاں سے بھی حاصل ہو کر لینی چاہئے اور حکومت پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں کے علاوہ پرائیویٹ سکول کالج اور یونیورسٹیاں بھی ہمارے ہاں موجود ہیں جہاں سے بچے اور بچیاں زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر بڑے بڑے اہم عہدوں پر تعینات ملک و قوم کی خدمت کر رہی ہیں البتہ اس ملک میں غریب اور سفید پوش طبقے کے لئے ہر شعبے میں کٹیگریاں بنا دی گئی ہوئی ہیں سرمایہ دار اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے یورپی ممالک سے تعلیم دلوانا فخر محسوس کرتے ہیں لیکن یہاں غریبوں کے بچے بھی کسی سے کم نہیں ہوتے، لیکن خدا کی قدرت کے قربان جائیے ملالہ یوسف زئی کسی سرمایہ دار کی دختر نہیں تھی جتنی عزت اسے ملی شائد ہی کسی بچی کو ملی ہو گی۔ ملکی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح پر امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک نے اسے دنیا کے جدید ہسپتال سے اس کا علاج کروا کر اسے پھر سے نئی زندگی لوٹا دی۔ دنیا نے ملالہ کی حوصلہ مندی، قابلیت اور ذہانت کو دیکھتے ہوئے اس کا نام نوبل انعام کے لئے تجویز کر دیا ہے اور اسی سلسلے میں حکومت پاکستان کی ہدایت پر ریڈیو پاکستان کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل محترم مرتضیٰ سولنگی کو ملالہ یوسف زئی کے حوالے سے (حرف ہمارے تیرے نام کے/ عنوان سے 8 مارچ 2013ء کو زیڈ اے بخاری آڈیٹوریم سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر نشر کیا جس میں جن شعراءکا منتخب کلام نشر کیا گیا ان میں مقابلے میں اول آنے والوں دوئم اور سوئم کے اسم گرامی اردو میں پہلا انعام سید عارف ، دوسرا انعام ناصر بشیر اور تیسرا انعام نثار ناسک کا ہے۔ انگلش شاعروں میں اول انعام ہاریہ حمید ، دوسرا انعام رحیم یاسین، تیسرا انعام شعیب پاشا، پنجابی میں اول انعام سلطان کھادوں دوسرا انعام زبیدہ حیدر زیبی تیسرا انعام مدثر قدیر، سرائیکی میں اول انعام رضوانہ تبسیم درانی دوسرا انعام سعید نوشاہی تیسرا انعام سجاد بری/ پشتو میں اول انعام عجب خان عجب ، دوسرا انعام رحمان سحر، اور تیسرا انعام شاہد عمر زئی بلوچی میں پہلا انعام رمضان شاہ دوسرا انعام حبیب رند اور تیسرا انعام عبداللہ دستی ان حضرات کو نقد انعام کے علاوہ یادگاری شیلڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان شعراءکرام کا کلام منظور علی تنہا کنٹرولر ہوم کی سربراہی میں ایک بورڈ بنا کر منتخب کیا گیا۔ جن شعراء حضرات کا کلام ریڈیو پاکستان لاہور کے سنٹرل پروڈکشن یونٹ میں ریکارڈ کیا گیا ان میں سید عارف کا کلام ملالہ تو میرے قافلے کی ھُدی خواں لڑکی
گلوکارہ فریحہ پروز موسیقی مجاہد حسین (علم کی شمع جلی ہے تو جلی رہنے دو)
کلام ناصر بشیر: آواز علی عباس موسیقی مجاہد حسین (ملالہ اے میری بیٹی) کلام نثار ناسک آواز حمیرا چنا، موسیقی وجاہت عطرے ملالہ حوصلے تیرے ہنیرے دور کیتے نیں کلام سلطان کھادوں، ملالہ علم دا دریا کلام رضوانہ تبسم ، گلوکارہ شبوبیہ ملک، انور رفیع اور دیگر پروڈیوسر تھے۔ محمد سلیم بزمی اور ایگزیکٹو، پروڈیوسر سید شہوار حیدر ڈپٹی کنٹرول سی پی یو لاہور یہ پروگرام قومی اور بین الاقوامی رابطے پر برائے راست 9 بجے تک جاری رہا زیڈ اے بخاری آڈیٹوریم میں تل دھرنے کی کو جگہ نہ تھی اور پروگرام میں ملک کی نامور شخصیات کے علاوہ غیر ملکی سفیر بھی موجود تھے اور اس سارے پروگرام کو کنٹرول کر کے کامیاب بنانے کا سہرا ڈی جی ریڈیو پاکستان مرتضیٰ سُولنگی کے سر ہے سولنگی سائیں ڈی جی ریڈیو پاکستان ہونے کے ساتھ پروفیشنل براڈ کاسٹر بھی ہیں اور وائس آف امریکہ میں ایک عرصہ تک خدمت انجام دینے اور پروگراموں کی تربیت اور نشریات کا وسیع تجربہ رکھنے والی شخصیات ہیں۔