ایک غیر ملکی سفیدفام صحافی نے ایک ملکی سفید فام صحافی سے جی پی او کے قریب وکلا اور ان کے ساتھیوں کے سروں پر برستے ڈنڈوں اور ان کے جسموں پر لگتے آنسو گیس شیلوں کے مناظر دیکھ کر پوچھا ’’ہمارے ہاں تو یہ سلوک ’’قاتلوں‘‘ کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا‘ جو تم لوگ ان بے گناہ لوگوں پر روا رکھ رہے ہو! ہم لوگ تو کسی ’’مجرم‘‘ کے ساتھ بھی اتنی دیدہ دلیری کے ساتھ ایسے ’’بہیمانہ‘‘ اور ’’غیر قانونی‘‘ تشدد کے بارے میں تصور بھی نہیں کر سکتے! ہم تو ’’قاتلوں‘‘ کے ساتھ بھی بہت سکون اور بہت وقار کے ساتھ بیٹھتے ہیں! یہ کیسی ’’بے توقیری‘‘ کے ساتھ انسانی شرف کی بے حرمتی کی جا رہی ہے؟
سوال بہت تیکھا تھا مگر ہمارے سفید فام صحافی نے اسے بہت ہلکے پھلکے انداز میں نمٹا دیا‘ ’’تم بالاخر ان ’’قاتلوں‘‘ کے ساتھ کیا کرتے ہو؟‘‘’’جیل میں مرنے کے لئے زندہ رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں!‘‘ہم انہیں اقتدار کی بھول بھلیوں میں باہر کا راستہ تلاش کرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیتے ہیں! ہمارے ملکی سفید فام صحافی نے فرمایا
اگر ہم کسی کا حق دلانے کا اختیار نہیں رکھتے تو ہم انصاف کے نام پر ان کے باقی ماندہ حقوق بھی سلب کر لیتے ہیں! کہ ظلم ہو رہا ہو تو ظلم میں اضافے کا حق ہر کسی کے حصے میں اس کے جثے کے مطابق ازخود آ جاتا ہے! پنجاب اور سندھ کی پولیس نے یہ حق استعمال کرکے دکھا دیا لہٰذا سرحد اور بلوچستان کے گورنروں نے بھی اپنا حقِ حکمرانی استعمال کرنا شروع کر دیا۔ حصہ بقدر جثہ اصل اصول زندگی قرار پا جانے کے باعث‘ پنجاب اور سندھ سرحد اور بلوچستان پر بازی لے گئے۔
ارسطو نے ایک بار اپنے شاگردوں سے مخاطب ہو کر کہا تھا: ہر روز آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا کرو! اگر چہرہ اچھا لگے تو اسے برائی سے آلودہ نہ ہونے دو اور اگر چہرہ برا لگے تو اسے برائی سے آلودہ کرکے اور خراب نہ کرو!
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم گذشتہ 38 برس کے دوران اپنا چہرہ اتنا بگاڑ بیٹھے ہیں کہ اگر کبھی نہا دھو کر باہر نکلنے کے بارے سوچیں بھی تو ’’ٹی وی سکرین‘‘ ان گنت خدشات‘ خطرات اور متوقع حادثات کا شور کچھ اتنے زور سے مچا دیتی ہے کہ گھر سے باہر نکلنے کا ارادہ ملتوی کرنا پڑ جاتا ہے۔
جناب نواز شریف جیسے بھی تھے‘ جہاں بھی تھے‘ کی بنیاد پر اللہ اکبر کا نعرہ مار کر گھر سے نکل آئے اور کارواں بنتا گیا!جی پی او سے شروع ہونے والی کہانی گوجرانوالہ میں ختم ہو گئی!اب کیا ہو گا؟ نیوز چینلوں کے اینکر پرسن پریشان ہیں!جناب علی احمد کرد نے بہت خوب کہا کہ 2 نومبر 2007ء کی عدلیہ بحال ہو گئی اور اس دوران پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے عدالتیں خود نمٹیں گی! ’’اب کیا ہو گا؟‘‘ کا پہلا جواب تو سٹاک ایکسچینج نے 300 سے زائد پوانئٹ کے اضافے کے ساتھ مہیا کر دیا۔ گذشتہ دو روز کے دوران گلیوں بازاروں میں خرید و فروخت اور کاروباری سر گرمیوں میں تیزی کا رجحان کسی کی آنکھ سے چھپا نہیں! لیکن قمر زمان کائرہ کے وزیر اطلاعات بنتے ہی ان کے احکامات کی ’’عدم تعمیل‘‘ کا سلسلہ چل نکلا اور بہت سے چینل ’’خاموش‘‘ کر دئیے گئے!ہم 14 اور 15 مارچ کی طرف لوٹیں تو ہمیں احساس ہو گا کہ ایم کیو ایم واقعی ایک ’’وفادار ساتھی‘‘ ہے‘ ایم کیو ایم نے پاکستان پیپلز پارٹی کا واقعی اسی طرح ساتھ دیا‘ جس طرح انہوں پرویز مشرف کا ساتھ دیا تھا!
یہ الگ بات ہے کہ جناب آصف علی زرداری نے جناب پرویز مشرف جیسا کردار نبھانے کی کوشش آخری لمحے تک کی!
اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہِ مومن و مامن آفرین سے تو یہی توقع ہے کہ وہ اس ملک کی نگہبانی فرماتے ہوئے ہم پر اپنی تمام تر نعمتیں سراسر رحمتیں بنا کر نازل فرماتا چلا جائے اور ہم اسی کے فضل کی چھائوں ارتقا کی منزلوں پر منزلیں سر کرتے چلے جائیں!
سوال بہت تیکھا تھا مگر ہمارے سفید فام صحافی نے اسے بہت ہلکے پھلکے انداز میں نمٹا دیا‘ ’’تم بالاخر ان ’’قاتلوں‘‘ کے ساتھ کیا کرتے ہو؟‘‘’’جیل میں مرنے کے لئے زندہ رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں!‘‘ہم انہیں اقتدار کی بھول بھلیوں میں باہر کا راستہ تلاش کرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیتے ہیں! ہمارے ملکی سفید فام صحافی نے فرمایا
اگر ہم کسی کا حق دلانے کا اختیار نہیں رکھتے تو ہم انصاف کے نام پر ان کے باقی ماندہ حقوق بھی سلب کر لیتے ہیں! کہ ظلم ہو رہا ہو تو ظلم میں اضافے کا حق ہر کسی کے حصے میں اس کے جثے کے مطابق ازخود آ جاتا ہے! پنجاب اور سندھ کی پولیس نے یہ حق استعمال کرکے دکھا دیا لہٰذا سرحد اور بلوچستان کے گورنروں نے بھی اپنا حقِ حکمرانی استعمال کرنا شروع کر دیا۔ حصہ بقدر جثہ اصل اصول زندگی قرار پا جانے کے باعث‘ پنجاب اور سندھ سرحد اور بلوچستان پر بازی لے گئے۔
ارسطو نے ایک بار اپنے شاگردوں سے مخاطب ہو کر کہا تھا: ہر روز آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا کرو! اگر چہرہ اچھا لگے تو اسے برائی سے آلودہ نہ ہونے دو اور اگر چہرہ برا لگے تو اسے برائی سے آلودہ کرکے اور خراب نہ کرو!
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم گذشتہ 38 برس کے دوران اپنا چہرہ اتنا بگاڑ بیٹھے ہیں کہ اگر کبھی نہا دھو کر باہر نکلنے کے بارے سوچیں بھی تو ’’ٹی وی سکرین‘‘ ان گنت خدشات‘ خطرات اور متوقع حادثات کا شور کچھ اتنے زور سے مچا دیتی ہے کہ گھر سے باہر نکلنے کا ارادہ ملتوی کرنا پڑ جاتا ہے۔
جناب نواز شریف جیسے بھی تھے‘ جہاں بھی تھے‘ کی بنیاد پر اللہ اکبر کا نعرہ مار کر گھر سے نکل آئے اور کارواں بنتا گیا!جی پی او سے شروع ہونے والی کہانی گوجرانوالہ میں ختم ہو گئی!اب کیا ہو گا؟ نیوز چینلوں کے اینکر پرسن پریشان ہیں!جناب علی احمد کرد نے بہت خوب کہا کہ 2 نومبر 2007ء کی عدلیہ بحال ہو گئی اور اس دوران پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے عدالتیں خود نمٹیں گی! ’’اب کیا ہو گا؟‘‘ کا پہلا جواب تو سٹاک ایکسچینج نے 300 سے زائد پوانئٹ کے اضافے کے ساتھ مہیا کر دیا۔ گذشتہ دو روز کے دوران گلیوں بازاروں میں خرید و فروخت اور کاروباری سر گرمیوں میں تیزی کا رجحان کسی کی آنکھ سے چھپا نہیں! لیکن قمر زمان کائرہ کے وزیر اطلاعات بنتے ہی ان کے احکامات کی ’’عدم تعمیل‘‘ کا سلسلہ چل نکلا اور بہت سے چینل ’’خاموش‘‘ کر دئیے گئے!ہم 14 اور 15 مارچ کی طرف لوٹیں تو ہمیں احساس ہو گا کہ ایم کیو ایم واقعی ایک ’’وفادار ساتھی‘‘ ہے‘ ایم کیو ایم نے پاکستان پیپلز پارٹی کا واقعی اسی طرح ساتھ دیا‘ جس طرح انہوں پرویز مشرف کا ساتھ دیا تھا!
یہ الگ بات ہے کہ جناب آصف علی زرداری نے جناب پرویز مشرف جیسا کردار نبھانے کی کوشش آخری لمحے تک کی!
اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہِ مومن و مامن آفرین سے تو یہی توقع ہے کہ وہ اس ملک کی نگہبانی فرماتے ہوئے ہم پر اپنی تمام تر نعمتیں سراسر رحمتیں بنا کر نازل فرماتا چلا جائے اور ہم اسی کے فضل کی چھائوں ارتقا کی منزلوں پر منزلیں سر کرتے چلے جائیں!