اتوار ،19 ذیقعد 1443ھ،19جون 2022 ء
سندھ میں تجارتی مراکز 9 بجے بند کرنے کا حکم
آج کل نجانے کیا بات ہے حکومت سندھ بہت سے کاموں میں بازی لے جانے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ اب لوڈشیڈنگ کی وجہ سے جو عذاب قوم پر مسلط ہے اس پر قابو پانے کی کوشش میں سب لگے ہوئے ہیں۔ مگر بازی پھر وہی سندھ حکومت لے گئی ہے۔ اس بار سندھ حکومت نے سندھ میں کاروباری اور تجارتی مراکز مارکیٹیں وغیرہ رات 9 بجے بند کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ خدا کرے اس پر عمل ہو جائے تو بجلی کی کافی بچت ہو گی۔ اسی طرح شادی ہالز بھی ساڑھے دس بجے اور ہوٹل وغیرہ 11 بجے بند کرنے کا فیصلہ بھی مثبت ہے۔ اسی طرح سڑکوں پر لگے بڑے بڑے جہازی سائز کے بل بورڈز پر بھی چراغاں کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ یوں بجلی کی بچت ہونے سے کم از کم لوڈشیڈنگ کا زور تو ٹوٹے گا اور بجلی کی طلب و رسد میں توازن پیدا ہونے سے عوام کو سکون ملے گا ورنہ اس گرمی میں یہ بجلی کی آنکھ مچولی تو قیامت پہ قیامت ڈھاتی ہے۔ آگے مون سون کا موسم آ رہا ہے۔ اس موسم میں تو رہنا دشوار ہو جاتا ہے۔ چوٹی تا ایڑی پسینہ بہتا ہے۔ حبس اتنی ہوتی ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ‘‘ اب خدا کرے ہماری باقی صوبائی حکومتیں اور مرکزی حکومت بھی دل بڑا کر کے ایسے ہی اقدامات کا اعلان کریں تاکہ ہماری الٹا چلنے والی قوم کا قبلہ درست ہو۔ دنیا بھر میں اوقات کار سرکاری ہوں یا غیر سرکاری 9 تا 5 ہیں۔ چلیں ہم عادی مجرم ہیں ہم اسے 10 تا 9 کر دیتے ہیں مگر اس سے زیادہ رعایت کسی کو نہ دیں۔ دفاتر ہوں یا کاروباری اور تجارتی مراکز 9 بجے بند ہوں وہاں بجلی بند کر کے کاروبار حیات سمیٹا جائے۔ اس طرح ہر طرح کی آرائشی اور نمائشی روشنیاں تو 8 بجے کے بعد مکمل بند ہونا ضروری ہے۔ اس طرح کم از کم انڈسٹری کو بھی بجلی مہیا ہو جائے گی اور اس کا پہیہ بھی چلتا رہے گا۔ اس سے بھی بڑا کام یہ ہو گا کہ بجلی چوری ہر صورت روکی جائے خواہ پھانسی ہی کیوں نہ دینی پڑے اور بجلی کے بوسیدہ ترسیل کا نظام سے جان چھڑائی جائے۔
٭٭٭٭٭
بھارت میں فوجی بھرتی کے نئے نظام کے خلاف پرتشدد مظاہرے
یہ فسادات جو بھارت کی مختلف ریاستوں میں تیزی سے پھیل رہے ہیں فوج میں بھرتی کے نئے قانون کے خلاف ہیں اس قانون کے تحت نوجوانوں کو 4 سال کے لیے فوج میں بھرتی کیا جائے گا۔ جن میں سے 75 فیصد کو 4 سال بعد فارغ کر دیا جائے گا۔ اس پر نوجوان سخت غصے میں آ گئے اور انہوں نے ’’اگنی پتھ (آگ کا راستہ) پروگرام کو مسترد کرتے ہوئے اسے نوجوانوں کے ساتھ مذاق قرار دیا اور سڑکوں پر نکل کر سرکاری عمارتوں ، ٹرینوں اور اہم تنصیبات کو نذر آتش کر کے ’’اگنی پتھ‘‘ کا عملی مظاہرہ کچھ اس طرح پیش کرنا شروع کیا ہے کہ پورے بھارت میں ہا ہا کار مچ گئی ہے۔ اب امیت ، مودی اور یوگی تینوں خوفزدہ چوہوں کی طرح کبھی یہاں اور کبھی وہاں بھاگ دوڑ کر رہے ہیں کہ ’’اگنی پتھ‘‘ کی لگی آگ کو کس طرح بجھایا جائے۔ مگر ’’آگ کا راستہ‘‘ نامی یہ پروگرام اب واقعی پورے بھارت میں آگ لگا رہا ہے، یہ آگ بجھنے کا نام نہیں لے رہی۔ لگتا ہے بھارت کی انتہا پسند حکومت نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا کر الٹا انہیں کو پکڑنا اور ان کے گھر گرانا شروع کیا ہے وہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا بن گیا ہے۔ گائے، مساجد، اذان جیسے مسئلوں پر مسلمانوں کی نسل کشی کی سزا اب بھارت سرکار کو ’’اگنی پتھ‘‘ کے نام پر مل رہی ہے۔ سچ کہتے ہیں قدرت کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ اس کی پکڑ سے کوئی بچ نہیں سکتا۔
٭٭٭٭٭
سعودی عرب میں معمر افراد سے بدسلوکی پر ایک سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ کی سزا
یہ ہوتے ہیں حکومتوں کے کرنے والے کام۔ یہی اسلامی فلاحی مملکت کی ذمہ داری بھی ہے۔ ہمارے ہاں بڑے زور و شور سے کبھی عوامی فلاحی تو کبھی اسلامی فلاحی اور کبھی ریاست مدینہ کے مقدس نام پر جس طرح لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے وہ سب دیکھ چکے ہیں اور آگے بھی نجانے کیا کچھ دیکھیں گے۔ کسی دور میں بھی غریب بزرگ شہریوں کو ایک رتی برابر بھی عزت نہیں دی گئی الٹا بزرگوں کی سرعام چھترول، انہیں گھر سے بے گھر کرنے ، انہیں قتل کرنے اور ان کے ساتھ مار پیٹ اور بدتہذیبی کے واقعات تسلسل سے جاری ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں ہمارا دین ہمیں بزرگوں کے احترام کا درس دیتا ہے۔ مگر افسوس ہماری گلیوں سڑکوں پر سب سے زیادہ قابل رحم حالت بزرگوں کی ہوتی ہے۔ مسافر بسیں ہو یا گاڑیاں انہیں وہ رعایت اور احترام نہیں ملتا جس کے وہ حقدار ہیں۔ انہیں دکانوں میں تفریحی گاہوں میں بھی بد سلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جو افسوسناک ہے۔ ایک وقت تھا جب ہم بزرگوں کے لیے نشستیں چھوڑ دیتے تھے۔ انہیں قطار کی زحمت سے بچا لیتے تھے۔ سڑک پار کرانے میں سامان اٹھانے میں ان کی مدد کرتے تھے۔ مگر اب یہ سب کچھ خواب و خیال ہوتا جا رہا ہے۔ تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ لوگ بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی اور بدتمیزی سے بھی باز نہیں آئے۔ میڈیا ایسی خبروں سے بھرا ہوتا ہے۔ اب ہمارے ہاں بھی سعودی عرب کی طرح بزرگوں سے بدسلوکی پر ایک سال قید اور 5 لاکھ جرمانے کی سزا نافذ ہو تو شاید بے شعور لوگوں میں کچھ شعور پیدا ہو۔
٭٭٭٭٭
بلوچستان کے شہریوں کو ہوائی سفر کی سہولتیں فراہم کرنا اولین ترجیح ہے۔ احسن اقبال
ہمارے وزیر منصوبہ بندی بھی کمال کے آدمی ہیں۔ نجانے کیوں وہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے والا بیان دیتے ہیں۔ بہتر تھا پہلے وہ معلوم کر لیا کریں کن کے بارے میں کہنا ہے اور کیا کہنا ہے۔ بلوچستان کے عوام کو سفری سہولتیں مہیا کرنا وہ بھی ہوائی سفر کی تو بہت بعد کی بات ہے وہاں ہوائی اڈے ہی کتنے ہیں۔ کتنے لوگ جہاز میں سفر کرتے ہیں۔ اگر پہلے وہاں بڑے شہروں میں جو گنتی کے ہی ہیں ہوائی اڈے بنیں گے تو جہاز اتریں گے یا اڑیں گے۔ اس وقت وہاں کے عوام کو زمینی سفر کی سہولتیں دستیاب نہیں تو ہوائی سفر دور کی بات ہے۔ ذرا پاکستان کے دو بڑے ریلوے سٹیشنوں پشاور اور کراچی سے کوئٹہ جانے والی ٹرینوں کی حالت پر ہی نظر ڈالیں تو دماغ بھک سے اڑ جاتا ہے۔ اے سی کوچز تک کی حالت نہایت ابتر ہے۔ نان اے سی سلیپر اور اکانومی کلاس کا حال تو نہ ہی پوچھیں۔ یہ دور قدیم کے خستہ حال پرانے ڈبوں سے تیار ہونے والی ٹرینیں جعفر ایکسپریس ہو یا بولان میل میں سفر کرنے والوں کے انجر پنجر تک ہلا دیتی ہیں۔ پانی ندارد۔ واش رومز گندے ٹوٹے ہوئے نلکے سیٹیں ادھڑی ہوئیں ، سٹیشنوں پر معیاری چیز نہیں ملتی۔ یہی حال نجی ٹرانسپورٹر کا بھی ان میں سوائے سفر کے اور کوئی سہولت دستیاب نہیں وائوچر یا کرایہ نامہ پر بہت کچھ لکھا ہوتا ہے مگر سوائے پانی کے کچھ نہیں ملتا۔ اوپر سے سڑکوں کی حالت نہایت ہی ابتر ہے۔ ذرا کوئٹہ تا کراچی یا سکھر یا کوئٹہ تا ڈی جی خان یا ڈی آئی خان سفر کر لیں لگ پتہ جائے گا۔ اس لیے آسمان سے پہلے زمین کی خبر لیں جہاں سفری سہولتیں فراہم کرنا اشد ضروری ہے۔