سر راہے
اردن میں پارلیمنٹ کی توہین کرنے پر معطل رکن گرفتار
اردن پارلیمنٹ کے رکن اسامہ العجارمہ کو پارلیمنٹ کی توہین کرنے، وقار اور ساکھ کو نقصان پہنچانے اور ارکان کو ہدف تنقید بنانے پر پہلے معطل اور پھر گرفتار کرلیا گیا۔ یہ ہوتی ہے اداروں کے تقدس کی پاسدار ی، آئین اور قانون کی بالادستی۔ ہماری پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوتا ہے اور بالخصوص بجٹ سیشن کے دوران تین دن جو کچھ ہوتا رہا آئین کی دھجیاں بکھیری جاتی رہیں، قانون کو روند ڈالا گیا، پارلیمنٹ کا تقدس پامال کیا گیا، وزیر اور ’’وزیرنیاں‘‘ جس طرح ’’اٹکھیلیاں ‘‘ کرتی رہیں پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا۔ پارلیمنٹ کی توہین پر ہمارے ہاں بھی ’’منہ زور‘‘ ارکان کیخلاف ہلکی پھلکی کارروائی کی گئی، بس 7 ارکان پر ایک سیشن میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی لیکن اردن میں رکن پارلیمنٹ کو گرفتار کیا گیا، ہمارے ملک میں ایسا ہوتا تو تمام ارکان پارلیمنٹ اس کے ساتھ کھڑے ہوتے پھر پارلیمنٹ کی توہین کی بجائے رکن پارلیمنٹ کی توہین قابل دست اندازیٔ پولیس جرم ٹھہرتی۔ خیر! اردن پارلیمنٹ کی ساری کارروائی میں وہاں کے سپیکر کا کوئی تعلق اورکردار نہیں، سارا کردار اردنی وزیر داخلہ کا ہے، اگر ایسی ذمہ داری ہمارے ہاں بھی سپیکر کی بجائے وزیر داخلہ کو سونپ دی جائے تو پھر ’’رنگ سیاست‘‘ اور ’’رونق پارلیمنٹ ‘‘ ہی کچھ اور ہو، بہرحال ’’عاقل را اشارہ کافی است‘‘ (عقل مند کیلئے اشارہ ہی کافی ہے) کے مصداق ہمارے ارکان پارلیمنٹ کو اردنی رکن پارلیمنٹ کے انجام سے سبق سیکھنا چاہئے، ضروری نہیں، اختیارات سپیکر کے پاس ہی رہیں’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت کبھی یہ ذمہ داری وزیر داخلہ کو بھی سونپی جاسکتی ہے اس لئے
ڈرو اس سے جو وقت آنے والا ہے
کہ لوگ ان لوگوں کی تربت سے انتقام لیں گے
٭٭٭٭٭
قومی بچت سکیموں کی شرح منافع میں اضافہ
بچت سکیموں کے بارے میں لوگوں کو عام طور پر شکایات ہی ہوتی ہیں، کبھی ناجائز کٹوتیوں کا شکوہ، کبھی منافع کی شرح کم کرنے کا گلہ‘ کبھی عملے کی بے رخی کا ملال‘ کبھی بروقت پیسے نہ ملنے کا مسئلہ، گویا ہر لمحہ ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ کہیں ایسی بچت سکیموں کا انجام ’’ڈبل شاہ‘‘ جیسا نہ ہو لہٰذا قومی بچت سکیموں کے کھاتے داروں کیلئے اب یقیناً یہ خوشخبری ہے کہ حکومت نے شرح منافع میں اضافہ کردیا۔ قومی بچت سکیموں کے کھاتے دار کوئی صنعتکار،سرمایہ دار یا بڑے کاروباری لوگ نہیں ہوتے بلکہ یہ بے چارے تین،تین ، چار ، چار دہائیاں سرکار کی نوکری کرکے ریٹائرمنٹ کی جمع پونجی قومی بچت سکیموں کی ’’نذر‘‘ کردیتے ہیں پھر ہر مہینے اس سے حاصل ہونے والے معمولی منافع پر گزراوقات کرتے ہیں جبکہ بچت سکیموں میں کی گئی سرمایہ کاری کو بچوں کی تعلیم، صحت اور شادیوں تک کیلئے ’’محفوظ‘‘ رکھتے ہیں مگر کئی افراد کی اس جمع پونجی کے ساتھ ان کی اولاد ’’چوراں دے کپڑے تے ڈانگاں دے گز‘‘ جیسا سلوک کرتی ہے۔ بہرحال کھاتے داروں کے مسائل ہیں تو بچت سکیمیں بھی اپنی بے بسی کا رونا روتی ہیں۔
اللہ رے اس گلشن ایجاد کا عالم
جو صید کا عالم ، وہی صیاد کا عالم
اف رنگ رخ بانیٔ بے داد کا عالم
جیسے کسی مظلوم کی فریاد کا عالم
٭٭٭٭٭
بھارت میں ’’کرونا دیوی‘‘ کی پوجا کی جانے لگی
پہلے ہی بھارت میں ہر چیز کی پوجا ہورہی ہے، گائوماتا سے لے کر کس کس جاندار و بے جان چیز کو پوجا نہیں جاتا۔ اب اگر بھارتی ریاست اترپردیش کے گائوں شکالاپور میں مندر بناکر ’’کرونا دیوی‘‘ کو پوجنا شروع کردیا گیا ہے تو اس میں اچنبھے کی کون سی بات ہے۔ کرونا نے پوری دنیا میں بالعموم اور بھارت میں بالخصوص جس طرح ستم ڈھائے ہیں کرونا کی وجہ سے انسانی لاشوں کی بھی بے حرمتی ہوئی۔ ’’ارتھیاں‘‘ شمشان گھاٹ لے جانے کیلئے کوئی اپنا ، پرایا (ہندو) تیار نہیں تھا، بالآخر یہ کام بھی خدائے واحد کو پوجنے والوں نے ہی انجام دیا، خیر! جس طرح اور بہت سی ’’نحوستیں‘‘ مودی سرکار کے ’’اعزازات‘‘ میں ہیں ان میں ’’کرونا دیوی‘‘ کے ایک اور ’’اعزاز‘‘ کا اضافہ ہے۔ کرونا سے بچائو کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ اب گائے کا پیشاب اور گوبر ’’کرونا دیوی‘‘ کے منہ پر لیپ دیا جائے، اس سے کرونا وائرس میں کمی آئے گی کیونکہ چند ماہ پہلے بھارت میں گائے اور اونٹ کے پیشاب سے بھی کرونا وائرس کے علاج کا دعویٰ کیا گیا تھا تاہم جس طرح کرونا ویکسین مختلف ملکوں میں آزمائشی بنیادوں پر شروع کی جاتی رہی ہے اور سب سے پہلے اسی ملک کے صدر یا وزیراعظم نے ویکسین لگوائی ہے اس لئے ضروری ہے کہ بھارت میں بھی گائے یا اونٹ کے پیشاب سے کرونا کے علاج کا آزمائشی طور پر آغاز بھارتی وزیراعظم مودی یا اس کی سرکار کے دیگر وزراء سے کیا جائے کیونکہ ’’کرونا دیوی‘‘ کا تقاضا بھی یہی ہے۔
٭٭٭٭٭
عید سے پہلے قربانی دیکھ رہا ہوں: منظور وسان
بکرا عید جب بھی قریب ہوتی ہے تو پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں ’’قربانی‘‘ کی بات چھڑ جاتی ہے۔ حکومتی بنچوں سے اپوزیشن کے ’’نظریے‘‘ کی قربانی کی آوازیں بلند ہوتی ہیں تو اپوزیشن کی جانب سے پوری حکومت ’’قربان‘‘ کئے جانے جیسی افواہیں پھیلا کر مخالفین کی چھاتیوں پر مونگ دلی جاتی ہے۔ ’’قربانی‘‘ کے حوالے سے شیخ رشید بھی بڑا دبنگ موقف رکھتے ہیں تاہم وزراتی مصروفیات کے باعث آج کل اظہار نہیں کررہے، اسی طرح معروف مذہبی و سیاسی رہنما حافظ حسین احمد بھی قربانی کے شرعی تقاضوں کو سمجھتے ہوئے بھی ’’کان کٹوں‘‘ اور ’’داغیوں‘‘ کی قربانی کی بھی پیش گوئی کررہے ہوتے ہیں ۔ اب پیپلزپارٹی کے رہنما منظور وسان نے بھی قربانی کی پیش گوئی شروع کردی ہے۔ لگتا ہے وہ بھی آج کل ’’فارغ البال ‘‘ ہیں اس لئے انہوں نے بھی مصروفیت ڈھونڈ نکالی ہے اور پیش گوئی کردی ہے کہ ’’عید سے پہلے چھوٹی یا بڑی قربانی دیکھ رہا ہوں۔‘‘ سیاسی رہنما اور کارکن بڑی یا چھوٹی قربانی کی اصطلاح یقیناً اچھی طرح سمجھتے ہی ہوں گے۔ بڑی قربانی کی صورت میں منظور وسان تو کیا ان کی پیپلزپارٹی کے ہاتھ بھی کچھ لگنے کا معمولی سا بھی امکان نہیں جبکہ ’’چھوٹی قربانی‘‘ کی صورت میں پیپلزپارٹی کی بجائے منظور وسان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ دوسروں سے بڑھ کر وفاداری دکھائی اور نبھائی جائے۔ بہرحال منظور وسان کی پیش گوئی پر چھوٹی اور بڑی ’’دونوں قربانیوں‘‘ کو بھی محتاط رہنا پڑے گا کیونکہ؎
اے پاسبان گلشن تجھ کو خبر نہیں ہے
شعلے بھڑک رہے ہیں، پھولوں کی انجمن میں
٭٭٭٭٭