احتساب کے عمل کو بریک کیوں لگی
پاکستان میں انصاف حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے اُس کی وجہ ہمارے عدالتی نظام میں موجود خامیاں، کوتاہیاں اور مجبوریاں بھی سمجھی جا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتوں میں دادا کے کیس کا فیصلہ پوتے سُنتے ہیں ،ساری ساری عمر لوگ جیلوں میں گزارنے کے بعد بری ہو جاتے ہیں پھر اُن کی جیل میں گزاری ہوئی عمر کا کوئی حساب دینے کو بھی تیار نہیں ہوتا۔ پاکستان میں خرابیوں کی دوسری بڑی وجہ کرپشن کو سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہر دور میں احتساب کا نعرہ لگایا گیا مگر اُس احتساب کا جس طرح سے استعمال اور استحصال کیا گیا وہ ہماری تاریخ کے شرمناک اوراق ہیں، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ پاکستان میں بڑے مگرمچھوں، چوروں اور ڈاکوئوں پر ہاتھ ڈالنے کے لیے نیب کا ادارہ بنایا گیا ہے، اُس میں نیب کا ارادہ بنایا گیا۔
اُس میں نیب نے اپنے محدود وسائل کے باوجود اور تمام تر تنقید کا مقابلہ کرتے ہوئے ہر سطح کے بیوروکریٹ اور ہر درجے کے سیاست دان کے خلاف کارروائی کی ، دن رات ایک کرکے انکوائریاں کیں، ثبوت اکٹھے کئے اور بڑے بڑے لوگوں کا اصل چہرہ عوام کو دیکھایا مگر جب یہ کیسز چالان مکمل کر کے عدالتوں میں بھیجے گئے تو وہاں عدالتی نظام کی روایتی بھول بھلیوں میں گم ہوتے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ نیب آج تک کسی بڑے کے کسی مقدمے کو اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکا۔ نیب نے اربوں روپے کی ریکوریاں ضرور کی ہیں مگر ان ریکوریوں کا بڑا حصہ پلی بارگین کے ذریعے حاصل کیا جو کیس بھی عدالتوں میں چلا جاتا ہے تو ان کی تاریخیں ڈلنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے پھر اُن بڑے لوگوں کے خلاف کیسز پر عدالتی کارروائی میں کس کس طرح کی رکاوٹیں آتی ہیں اس کا اندازہ لاہور میں قائم احتساب عدالتوں کے ساتھ گزشتہ تین ماہ کے دوران ہونے والے کھلواڑ سے لگایا جا سکتا ہے۔ لاہور میں 31 مارچ 2021 ء تک تین احتساب عدالتیں کام کر رہی تھیں جن میں جواد الحق ، اکمل خان اور امجد نذیر چودھری نیب کے کیسز کی سماعت کر رہے تھے۔ ان عدالتوں کے پاس مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف ، حمزہ شہباز اور شریف فیملی کے دیگر افراد کے خلاف کیسز اپنے منطقی انجام کی جانب جاتے نظر آ رہے تھے۔ انہی عدالتوں کے پاس منی لانڈرنگ رمضان شوگر ملز آشیانہ پیراگون ، خواجہ سعد رفیق ، خواجہ آصف ، فواد حسن فواد ، احد چیمہ کے خلاف کیسز موجود تھے۔
پھر اچانک 31 مارچ 2021 ء احتساب عدالتوں کے تینوں ججز کے تبادلے نے سب کو حیران و پریشان کر دیا۔ احتساب عدالتوں کے تینوں ججز کی تعیناتی کی مدت ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ جواد الحسن کو مظفر گڑھ اکمل خان بہاولنگر امجد نذیر چودھری کو بہاولپور ٹرانسفر کرنے سے علمی طور پر ان عدالتوں میں زیر سماعت تمام اہم کیسز کی سماعت کو ہنگامی بریک لگ گئی، ان ججز کی تعیناتی کو کسی نے ڈیل اور کسی نے ڈھیل کا نام دیا۔ بعض مصلحت پسند اس عمل کو روٹین کا حصہ قرار دینے پر مُصر تھے مگر اندر سے وہ بھی شک و شبہات کا ہی شکار تھے۔ تین ماہ گزرنے کے باوجود ان عدالتوں میں کسی نئے جج کی تعیناتی نہ ہو سکی اور نہ ہی کسی کیس کی سماعت شروع ہو سکی۔ البتہ رجسٹرار ہائیکورٹ کے حکم پر اِن عدالتوں کے تین کمرے خالی کروانے کے عمل نے غیر جانبدار حلقوں کو مزید حیران کر دیا۔ کھربوں روپے کی منی لانڈرنگ کرپشن ، اقربا پروری اور اختیارات سے تجاوز کے اہم کیسز کی فائلیں بوریوں میں بھر کر انہیں سی کر گودام میں رکھوا دیا گیا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کیسز کی مستقبل قریب میں دوبارہ سماعت کا امکان نہیں۔ حیران کن بات ہے کہ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی کے شہر اور ہزاروں سرکاری عمارتوں کی موجودگی میں احتساب عدالتوں کے لیے تین کمرے دستیاب نہیں ہیں۔ سننے میں آ رہا ہے کہ ان عدالتوں کے لیے کہیں نئی عمارت تعمیر کی جائے گی پھر وہاں ججز تعینات ہونگے اور ان کیسز کی سماعت شروع ہو گی۔ ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس ملک میں طاقتور پر ہاتھ ڈالنا کتنا مشکل ہے چاہے پولیس ڈیپارٹمنٹ ہو، ایف آئی اے ہو یا نیب جیسا طاقتور ترین ادارہ ہو، وہ اس ملک کو اشرافیہ کا اس وقت تک کچھ نہیں بگاڑ سکتا جب تک اس مافیا سے زیادہ طاقتور طبقہ ایسا نہ چاہتا ہو۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے حکومت کو حکم دے رکھا ہے کہ احتساب کے عمل کو تیز کرنے کے لیے ملک بھر میں نئی احتساب عدالتیں بنائی جائیں مگر پہلے سے موجود عدالتوں کی تالہ بندی ان احکامات کے برعکس منظر پیش کر رہی ہیں۔ ان عدالتوں کی بندش کو بنیاد بنا کر ہائیکورٹ سے ضمانتیں بھی کروا لی گئیں مگر نیب کی طرف سے نیم دلانہ ردعمل بھی حیران کُن سا لگتا ہے۔
ان احتساب عدالتوں کی بندش وزیر اعظم کے احتساب کے ویژن اور نیب کی مہینوں تک کی جانے والی محنت پر پانی پھیرتی سی لگتی ہے۔ نیب پر تنقید تو بہت کی جاتی ہے مگر اس کے تیار کردہ کیسز کو مہینوں زیر التوا رکھا جائے گا تو اس کی کامیابی ناکامی میں بدلنے کے مترادف ہو گا۔ اس صورتحال میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور چیئرمین نیب کو چیف جسٹس آف پاکستان کو خطوط لکھنے چاہئیں کہ وہ ان عدالتوں کو جلد از جلد فعال بنانے کے لیے نئے جج تعینات کریں تاکہ ان کیسز کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔