روٹی
شفیق جنجوعہ صاحب سے کئی سال بعد ملاقات ہوئی۔ شعیب مرزا سات آٹھ سال قبل ان کے فلاحی پراجیکٹ دکھانے لاہور کے علاقے شادباغ لے گئے تھے۔ ان دنوں آنکھوں کے ہسپتال کی نئی عمارت بن رہی تھی۔ سعید آسی صاحب کی معیت میں جانے والوں میں میرے علاوہ امتیاز تارڑ بھی تھے۔ شفیق جنجوعہ بتا رہے تھے کہ ان کی عمر 84 سال ہو چکی ہے۔ اس عمر میں بھی وہ ہشاش بشاش ہیں۔ صحت مند ہیں۔ ٹرسٹ آتے ہیں۔ صبح سے شام ہسپتال میں اپنے بیٹے ندیم کے آنے تک وہیں ہوتے ہیں۔ ہسپتال چل رہا ہے اور بہترین طریقے سے چل رہا ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ تقسیم کے بعد لاہور ریلوے سٹیشن سے اندرون لاہور جانے کیلئے واحد سواری تانگہ تھا۔ سائیکلیں کافی، موٹرسائیکل خال خال اور کاریں نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں۔ آج موٹرسائیکلوں، گاڑیوں کی بھرمار ہے۔ جس جگہ انہوں نے گھر بنایا، یہ جگہ ایک ہزار روپیہ مرلہ خریدی ۔ آج دس لاکھ روپے مرلہ ہے۔ کوئی بیچنے کا ارادہ کرے تو خریدار بہت ہیں۔ لوگوں کے پاس پیسہ بہت ہے مگر شکرگزاری نہیں ہے۔ پاکستان کو برا بھلا کہتے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں جہاں امارت کی کوئی انتہا نہیں، وہیں غربت کی بھی حد نہیں ہے۔ غربت ، پسماندگی و درماندگی کا ذمہ دار بھی اشرافیہ اور امراء کا وہ طبقہ ہے جو وسائل کو لوٹ کر کھا گیا۔ شفیق جنجوعہ کے بیٹے لوہے اور سٹیل کی مصنوعات کی فیکٹری چلاتے ہیں۔ اس کی آمدن کا ایک بڑا حصہ ٹرسٹ ہسپتال کیلئے وقف ہے۔ مخیر حضرات بھی ساتھ دیتے ہیں جس سے روشنیاں تقسیم ہو رہی ہیں۔ ہسپتال میں زیادہ تر مستحق لوگ آتے ہیں۔ ڈاکٹر رضوان جیسے بڑے نام کے ماہر ڈاکٹرز محمدی میڈیکل ٹرسٹ کے ساتھ وابستہ ہیں اس لئے وہاں اپنے خرچ پر امیر لوگ بھی علاج کیلئے آتے ہیں۔ عمران خان کے شوکت خانم ہسپتال کی طرح علاج کے دوران مریضوں میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔
ہسپتال کو ندیم جنجوعہ زیادہ وقت دیتے ہیں۔ 2005ء کے زلزلے کے دوران ان کی ٹیم نے متاثر علاقوں میں کھانے اور ادویات کا کیمپ لگایا تھا۔ اس دوران کے وہ بڑے دلچسپ واقعات بیان کرتے ہیں۔ کیوبا کے ڈاکٹروں کو باقی ممالک کے ڈاکٹروں کی طرح حکومت نے سہولیات نہیں دی تھیں۔ وہ ان کے ساتھ ہی ایڈجسٹ ہو گئے۔ فیلڈ ہسپتال بنائے گئے تھے۔ ایک خاتون کو پاکستانی ڈاکٹر دیکھ رہے تھے۔ ایک ڈاکٹر نے کہا یہ مر گئی۔ یہ سننا تھا کہ بیک وقت تین کیوبن ڈاکٹر اس خاتون پر گویا جھپٹ پڑے۔ انہوں نے اسے خاتون نہیں، ایک مریض سمجھا۔ سانس بحال کرنے کے جتن کرنے لگے۔ پاکستانی ڈاکٹر پریشان ہو رہے تھے۔ لوگوں کے اشتعال میں آنے کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔ مگر انہوں نے کسی کی نہ سنی۔ چند منٹوں کے بعد خاتون کا سانس بحال ہو گیا۔ ایسے کئی لوگوں کو وہ زندگی کی طرف لے گئے جن کو ڈاکٹر مردہ قرار دے چکے تھے۔ وہ ڈاکٹر اس وقت تک سانس اور دل کی دھڑکن بحال کرنے کی کوشش کرتے جب تک خود مرنے والے نہیں ہو جاتے۔
ٹرسٹ میں ایک خاتون نے آکر کچھ گولیاں طلب کیں۔ ندیم نے ایک ڈبی سے ایک پتا نکال کے دیا۔ اس پر AZM لکھا تھا۔ ندیم نے بتایا کہ اس کی کل تک قیمت 47 روپے تھی، یہ مارکیٹ میں ہمیشہ شارٹ رہتی۔ بلیک میں پانچ ہزار کی ملتی۔ ہمیں واقفیت پر تین ہزار میں مل جاتی ۔ ماہانہ سینکڑوں کی تعداد میں خریدنی پڑتی ہیں۔ یہ کالا موتیا میں لائف سیونگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ گزشتہ دنوں حکومت نے اس کی قیمت 47 روپے سے بڑھا کر دو سو روپے کر دی تو ہر جگہ سے 200 میں دستیاب ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ حکومت نے 8 سو ادویات کی قیمتیں بڑھا دی ہیں جس کے ساتھ 500 کی قیمتیں کم بھی کی ہیں۔
ایسے ہسپتالوں میں عموماً غربت کے مارے ہوئے لوگ ہی آتے ہیں۔ انسان کو بنیادی طورپر روٹی کی تلاش ہوتی ہے۔ رزق معاش سب روٹی سے اور روٹی ان سے جڑی ہوئی ہے۔ بندہ روٹی کھاتا ہے اور کبھی روٹی بندے کو کھا جاتی ہے۔ روزانہ رزق اور معاش کی تلاش میں انسان کی کیا حالت ہو جاتی ہے، ایسے لوگ آپ کو ہر جگہ نظر آئیںگے۔ کئی لوگ روٹی کے بغیر بھوکے مر جاتے ہیں اور کئی کھا کھا کر بیماریوں کا شکار ہوکر قبر میں اتر جاتے ہیں۔ سنا ہے موٹا آدمی بوڑھا نہیں ہوتا۔ شاید یہ سب پرمنطبق نہ ہوتا ہو مگر بہت سوں پر ہوتا ہے۔ موٹا آدمی بوڑھا اس لئے نہیں ہوتا کہ موٹاپا اس کو بوڑھا ہونے سے قبل ہی موت بن کر اچک لیتا ہے۔ کھا کھا کر اور بھوک سے مرنے والے لوگوں کے مابین روٹی کی تقسیم میں توازن قائم کر دیا جائے تو دونوں زندہ رہ سکتے ہیں۔
شہبازشریف نے صوبے میں دو روپے کی روٹی منصوبہ جاری کیا جس سے کافی حد تک غریب کیلئے روٹی کا مسئلہ حل ہو گیا۔ پھر پتہ چلا کہ چند لوگ لاکھوں لوگوں کی روٹی کھا گئے۔ ایسے نامرادوں کو مارنے کے بجائے وزیراعلیٰ صاحب نے یہ منصوبہ ہی ترک کر دیا۔ حمزہ شہباز کی طرف سے بجٹ اجلاس سے خطاب میں کہا گیا کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں۔ بجٹ میں بھی دراصل پورے ملک اور صوبوں کی سال بھر کی روٹی کا حساب کتاب کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں بجٹ اجلاس میں غنڈہ گردی دیکھی گئی۔ گالی گلوچ ، مارکٹائی تشدد، اس پر جگ ہنسائی ہوئی۔ آج کی حکومت نے حمزہ شہباز کے بقول کچھ نہیں کیا تو اس سے قبل کی حکومتوں نے بھی قلعے سر نہیں کئے تھے۔ شہبازشریف نے قومی بجٹ پر خطاب کرتے ہوئے بڑے درد بھرے لہجے میں کہا ’’صرف کچھ روپے بچانے کیلئے قوم کی مائوں بہنوں، بیٹیوںکو چلچلاتی دھوپ میں کئی گھنٹے آٹے کیلئے کھڑے ہونا پڑتا تھا۔‘‘ وہ رمضان میں پنجاب میں سستے آٹے کی بات کر رہے تھے۔ وہ دس سال پنجاب کی تقدیر کے مالک رہے۔ وہ کتنے غریب لوگوں کے گھر اونٹنی پر آٹا لاد کر دینے گئے تھے ؟ بلاول بھی مہنگائی اور چینی کی قلت کی بات کرتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت مہنگائی پر قابو نہیں پا سکی۔ سندھ میں کس نے بلاول کو مہنگائی کے خاتمے سے روکا ہے۔ چینی کی آج سے کہیں زیادہ قلت بلاول کے نانا کے دور میں تھی جب راشن کارڈ پر فی فرد ایک پائو چینی ملتی تھی۔
آج سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر سیاستدان سوچیں اور بڑے لوگ صرف اپنے حصے کی روٹی پر اکتفا کر لیں تو سب کو روٹی مل سکتی ہے۔ دوسروں کے حصے کی روٹی کھانے سے ایک تو انسان بیماریوں میں گھِر جاتا ہے دوسرے جہنم بھی اسے گھیرنے کو بے تاب ہے۔