سگریٹ نوشی کرنیوالے ایک ارب افراد کی زندگی کا سوال ہے
فی الحال دنیا میں ایک ارب سے زیادہ بالغ افراد شگریٹ نوشی کرتے ہیں اور عالمی ادارہ صحت کے تخمینے کے مطابق اس تعداد میں 2025 تک کسی بھی طرح کی کمی کا امکان نہیں۔ تمباکو نوشی پر قابو پانے کی تواتر سے جاری کوششوں کے باوجود عالمی سطح پر ہر سال صرف ڈھائی فیصد افراد کامیابی کے ساتھ سگریٹ نوشی ترک کر دیتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر یہی شرح برقرار رہی تو دنیا سے تمباکو کی وبا کو مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے مزید ایک صدی درکار ہو گی۔ اب سوال یہ ہے کہ: کیا ہم 100 سال سے زائد عرصے تک ایک ارب سے زیادہ لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں؟ یا پھر کیا ہم تمباکو نوشی پر قابو پانے کی اپنی روایتی پالیسیوں میں جدت لانے جارہے ہیں جس سے ان اربوں لوگوں کی زندگیوں کو پہنچنے والے خطرات کو کم کرنے میں مدد کی جا سکے؟۔
تمباکو سے پہنچنے والے نقصان اور عالمی صحت عامہ پر اس کے اثرات کو دیکھتے ہوئے پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر سائنسی تحقیقات نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے مؤثر طریقے تجویز کیے ہیں۔ اگرچہ سرکاری سطح پر کچھ کاوشوں کے ذریعے سگریٹ نوشی کے واقعات کم کرنے میں مدد ملی ہے لیکن کئی ممالک میں تمباکو نوشی کرنے والوں کو اس عادت سے چھٹکارا دلانے کے لیے دراصل ان پالیسیوں کے اثرات سامنے آئے ہیں جو نقصانات کو کم کرنے کی حکمت عملیوں کی ضرورت کو تسلیم اور تمباکو نوشی سے پاک متبادل کو فروغ دیتے ہیں۔
پورے یورپ میں سب سے زیادہ تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد کے حامل ملک میں سے ایک انگلینڈ کے مطابق 2011 کے مقابلے میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد میں 20 لاکھ کی کمی دیکھی گئی ہے۔ برطانیہ کے کینسر ریسرچ کے مطالعے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سگریٹ نوشی جاری رکھنے والوں کی تعداد میں اس دوران 15فیصد کمی واقع ہوئی۔ مزید یہ کہ پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے اپنی ساتویں آزاد رپورٹ میں بتایا کہ اس دوران سگریٹ نوشی ترک کرنے میں دھوئیں سے پاک تمباکو نوشی کے متبادل سب سے زیادہ مقبول معاون ثابت ہوئے خصوصاً 2020 میں 27.2 فیصد افراد نے کامیابی کے ساتھ تمباکو نوشی ترک کردی۔ مزید برآں یہ ثابت ہوا ہے کہ ان مصنوعات کے سائنسی طور پر انسانی صحت کو پہنچنے والے نقصانات بھی کم ہیں کیونکہ سگریٹ نوشی جاری رکھنے والے افراد کو کم خطرے کے حامل متبادل فراہم کیے جاتے ہیں۔
انگلینڈ کی کامیابی کے علاوہ نیوزی لینڈ میں 2025 تک ملک کو سگریٹ سے پاک بنانے کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ای سگریٹ کو ایک کم خطرے کے حامل متبادل کے طور پر تسلیم کرنے کا بل بھی منظور کیا ہے۔ ایڈورڈز ایٹ ایل (2020) کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ سگریٹ کے استعمال کو کم کرنے میں دھوئیں سے پاک متبادل مصنوعات نے اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان میں بالغ آبادی کا تقریباً 15.9 فیصد روزانہ تمباکو نوشی کرتا ہے۔ اس وقت سگریٹ نوشی کے لیے پاکستان کو دستیاب واحد آپشنز ان کے جسم کو نقصان پہنچاتا رہا ہے یا تو وہ نشے سے یکسر تائب ہو چکے ہیں۔ اس سوچ میں ان جامع پالیسیوں کا فقدان ہے جو تمباکو نوشی جاری رکھنے والے بالغوں کو معلومات اور تمباکو کے نقصانات کم کرنے والے متبادل تک رسائی فراہم کرنے کے لیے درکار ہیں۔ ملک میں پہلے سے موجود تمباکو پر قابو پانے کی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ کم خطرے والے متبادل متعارف کرانے سے تمباکو نوشی پر قابو پانے کی کوششیں مزید مؤثر ہو سکتی ہیں اور بالغوں کے لیے قابل قبول، کم خطرناک متبادل فراہم کرسکتی ہیں جس سے تیز تر اور مؤثر انداز میں اس مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
لہٰذا ان غیرمؤثر حکمت عملیوں پر انحصار اور تمباکو نوشی کرنے والوں کو اپنی صحت کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت دینے کے بجائے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی روایتی پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور صحت عامہ کی مؤثر اور باضابطہ بحالی کے لیے تازہ ترین شواہد پر مبنی جدید پالیسیوں کو اپنائیں۔ اس مقصد کو کم نقصان کے حامل تمباکو نوشی کے متبادل کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے جس سے تمباکو نوشی کرنے والے اپنے جسم کو پہنچنے والے خطرے کو کم کرسکتے ہیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔