پنجاب اسمبلی: بجٹ پر بجٹ جاری، حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی تقریروں کے دوران ہنگامہ
لاہور (خصوصی نامہ نگار/کامرس رپورٹر) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں دوسرے روز بھی آئندہ مالی سال کے بجٹ پر عام بحث جاری رہی، حکومتی اراکین بجٹ دستاویز کی تعریف کیساتھ ساتھ سابقہ حکومت پر تنقید کے نشتر برساتے رہے۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز بھی مقررہ وقت تین بجے کی بجائے ایک گھنٹہ 22 منٹ کی تاخیر سے سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کی صدارت میں شروع ہوا۔ بحث پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومتی رکن و پبلک اکائونٹس کمیٹی II کے چیئر مین سید یاور عباس بخاری نے کہا کہ بجٹ میں سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ پیسہ انسانوں پر پیسہ خرچ ہوگا۔ 2600 ارب کا مقروض صوبہ233 ارب روپے کا سرپلس بجٹ دے رہا ہے، اس پر بھی گالیاں سنیں ، واویلا سنا، قائد حزب اختلاف مسکراہٹ اور اشارے کرتے رہے جو ہماری بدقسمتی ہے۔ بجٹ بک پر مقدس نام تحریر تھے لیکن انہیں پھاڑ کر ایوان میں پھینکا گیا، ہمیں اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔ کچھ ہم لوگوں میں شرم ہونی چاہیے، اپوزیشن رکن سردار اویس لغاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ پورا سال دوسری حکومتوں پر الزامات لگتے دیکھے۔ موجودہ حکومت نے سیاسی اور معاشی بہتری کیلئے کوئی کوشش نہیں کی ۔ اس موقع پر حکومتی اراکین کی جانب سے شور شرابہ کیا گیا جس پر اویس لغاری نے کہا کہ میری تقریر کو (ن) لیگ کا ممبر سمجھ کر نہیں پاکستانی سمجھ کر سن لیں۔ اس موقع پر سپیکر اسمبلی بھی ہائوس کو ان آرڈر کرنے کیلئے مداخلت کرتے رہے ۔ اویس لغاری نے کہاکہ حکمران نالائق ہیں ،کیا آئندہ چار سال کیلئے آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی منصوبہ بنایا، پانی کے مسئلے کا کوئی حل ہے۔ یہ کہا گیا کہ پانچ ہزار لوگوں کو پھانسی لگا دو اگر یہی بات بلوچ یاجنوبی پنجاب کا شہری کہتا تو بیان کو متنازعہ بنا دیا جاتا۔ کہتے ہیں زرتاج گل کے معاملے پر وزیر اعظم عمران خان نے نوٹس لے لیا تھا اس پر بات نہ کریں۔ حکومتی رکن فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ اویس لغاری کے والد جنوبی پنجاب کے بے تاج باشادہ رہے لیکن کچھ نہیں کر پائے، وڈیروں کو ایک غصہ ہے چھوٹے قبیلے کا شخص سردار عثمان کیوں وزیراعلیٰ بن گیا۔ نیب کی حوالات میں جو جو سامان گیا اس میں پائوں، ہاتھ اور منہ پر لگانے والی الگ الگ کریمیں تھیں، اسپغول دو قسم کے لے کر گئے تھے، جنوبی پنجاب کیلئے شہباز شریف حکومت نے بڑا ڈرامہ کیا۔ فیاض الحسن چوہان کی تقریرکے دوران اپوزیشن اراکین نے شور شرابہ شروع کر دیا جس پر سپیکر اپوزیشن اراکین کو خاموش رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ عظمیٰ بخاری نے بجٹ بحث میں اپنے خطاب میں کہا کہ وہ بھی جمہوریت کا حسن تھا کہ پارلیمنٹ پر حملہ کیاگیا اور دھرنا دیاگیا،اگر یہ صوبہ چلنے کے قابل نہیں تھا تو یہ کس طرح جہازوں میں بھر بھر کر لوگ لائے گئے۔ یہ ڈریکولا بن کر بیٹھے ہوئے ہیں فرعون بن کر بیٹھنے والوں کو خوف خدا نہیں۔ مولانا الیاس چنیوٹی نے کہا کہ ایک قادیانی سے ڈیم کے لئے چیک وصول کیا جاتا ہے ،ہم یہ نہیں کہتے چیک کیوں دیا لیکن وہ خود کو مسلمان سمجھتے ہیںجس کا مطلب یاپھر وہ مسلمان ہیں یا ہم یہ آئین پاکستان کے خلاف ہیں۔ راہ حق پارٹی کے معاویہ اعظم نے کہا کہ سابقہ دور کی طرح موجودہ حکومت نے بھی سابقہ ہسپتالوں میں کوئی ادویات فراہم نہیں کیں ،کہیں سے کسی مریض کو کوئی دوائی دستیاب نہیں ،بلکہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہسپتالوں کی حالت پہلے سے بھی خراب ہے۔ صفدر چھینہ نے کہا کہ تبدیلی تبھی آئے گی جب اپوزیشن کے حلقوں کو بھی برابر ترقیاتی فنڈز جاری ہوں گے۔ شیخ علائوالدین نے کہا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی ہسپتال میں چلے جائیں مفت دوائی نہیں ملتی۔ ٹیسٹوں کی 12 ہزار روپے تک فیس لی جاتی ہے۔ بحث پر عام بحث میں یاور کمال بخاری،مناظر علی رانجھا،اسوہ آفتاب مخدوم عثمان سمیت دیگر نے بھی حصہ لیا ۔پینل آف چیئرمین میاں شفیع نے وقت ختم ہونے پر پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج (بدھ )کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا۔