نیب نے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف ,ان کے صاحبزادوں حسین نواز اور حسن نواز ، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے نام ای سی ایل پر ڈالنے کے لئے وفاقی وزارت داخلہ سے ایک بار پھر درخواست کی ہے ۔ نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد طیب انور نے وزارت داخلہ کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز ، صاحبزادوں حسین نواز ، حسن نواز اور داماد کیپٹن(ر) صفدر کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پانچوں افراد کے خلاف جاری ایون فیلڈ ریفرنس کا ٹرائل آخری مرحلے میں ہے، ملزمان فیصلے سے بچنے کے لئے بیرون ملک فرار ہوسکتے ہیں اس لئے ان کے نام ای سی ایل میں شامل کئے جائیں۔واضح رہے کہ نیب نے 14 فروری 2018 کو بھی نواز شریف ،مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن (ر)محمد صفدر کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وزارت داخلہ کو مراسلہ بھیجا تھا۔ جس پر اس وقت کی وفاقی حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اس دوران میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز بیگم کلثوم نواز کی عیادت کے لئے لندن جا چکی ہیں۔ اس وقت بھی نیب نے ان کے برطانیہ جانے پر ناراضی کا اظہار کیا تھا لیکن اس کا بس نہیں چل سکا اس لئے نواز شریف لندن میں بیگم کلثوم نواز سے ملاقات کر کے وطن واپس آ گئے۔ میاں نواز شریف کے مخالفین انھیں دبائو میں رکھنے کے لئے کبھی ای سی ایل پر نام ڈالنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں کچھ تو فیصلہ آنے سے قبل خود ہی نواز شریف کو جیل بھیجنے کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔سر دست وفاقی وزارت داخلہ نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہلخانہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے تین رکنی کمیٹی کو ارسال کر دیا گیا ہے ۔ تین رکنی کابینہ کمیٹی میں وزیرداخلہ، وزیرخزانہ اور وزیر قانون شامل ہیں۔ نگران وفاقی وزیر داخلہ اعظم خان نے شریف خاندان کے نام کابینہ کمیٹی کو ارسال کرنے کی تصدیق کر دی ۔ انہوں نے کہا ہے کہ نیب کی جانب سے سفارش کردہ نام کمیٹی اجلاس میں زیر غور لائیں گے۔ کمیٹی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ وزرا ء کی عدم دستیابی کے باعث عید الفطر سے قبل نہیں ہو سکا ۔اب اس کمیٹی میں نواز شریف کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کے بارے میں غور کیا جائے گا۔ میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی کے ہمراہ لندن چلے گئے ہیں ان کا 19 جون تک وطن واپس آ نے کا پروگرام تھا لیکن انہوں نے پاکستان واپسی موخر کر دی ہے وہ جس روز لندن پہنچے بیگم کلثوم نواز دل کا دورہ پڑنے سے ہسپتال میں زیر علاج ہیں پچھلے کئی روز سے وینٹی لیٹر پر ہیں نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کا بیشتر وقت ہسپتال میں گزر رہا ہے ڈاکٹروں نے بھی میاں نواز شریف کو اپنی اہلیہ کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا مشورہ دیا ہے دوسری طرف جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے نواز شریف کے خلاف مقدمات ایک ماہ میں نمٹانے کا حکم جاری کیا تو نواز شریف کے وکیل نے مقدمات کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ’’ میں دبائو کے ماحول میں کام نہیں کر سکتا‘‘ جس پر احتساب عدالت کے جج نے میاں نواز شریف کو اگلے روز نیا وکیل کرنے کی ہدایت کر دی لیکن میاں نواز شریف نے کہا کہ ’’ ایسے حالات میں کوئی وکیل پیش ہونے کے لئے تیار نہیں ہو رہا۔ اگر الیکشن سے قبل فیصلہ مجبوری ہے تو کر دیا جائے، ڈوریاں سپریم کورٹ سے ہلائی جا رہی ہیں‘‘۔ نواز شریف نے یہ بات بھی کہی ہے کہ ’’ آج تک کسی وکیل کو اس طرح مجبور نہیں کیا گیا، کوئی ایک کیس بھی ہے جس کی مانیٹرنگ سپریم کورٹ کا جج کر رہا ہوں، یہ انصاف کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے‘‘۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ہے، لیکن میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ بیرون ملک جانے کے لئے میں نے سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے اور نہ ہی دوں گا، سمجھ نہیں آتی اجازت کیسے دے دی۔ گذشتہ ہفتے میاں نواز شریف احتساب عدالت میں پیشی کے لئے آئے تو وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ عید منانے لندن چلے گئے میاں نواز شریف کو اس بات کا گلہ ہے کہ جن لوگوں نے ملک کے اربوں اور کھربوں روپے لوٹے وہ گزشتہ پندرہ پندرہ سال سے گھر بیٹھے عیش کررہے ہیں اور جس نے رات دن ایک کر کے پاکستان کے اندھیرے دور کئے اور روشنی لایا وہ مقدمات بھگت رہا ہے۔ احتساب عدالت میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’ اگریہ فیئر ٹرائل ہے تو پھر مجھے اس بات کا حق پہنچتا ہے کہ میں مرضی کا وکیل کروں اور میری مرضی کا وکیل ہونا چاہیے۔ ای سی ایل پر میرا نام ڈالنے کی بات ہو رہی ہے ڈالنا ہے تو ڈال دیں، مجھے سزا دینی ہے تو سزا بھی دے دیں اور پھانسی لگانی ہے تو وہ بھی لگا دیں ،ایک طرف جس نے آئین توڑا اس کو خوش آمدید کہا جا رہا ہے اور جس نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا اس کا نام ای سی ایل پر ڈالا جا رہا ہے‘‘۔ سپریم کورٹ نے خواجہ حارث کو اتوار کے روز بلایا اور ان سے کہا کہ ہم احتساب عدالت کو کہہ رہے ہیں کہ وہ ہفتہ کے روز بھی کام کرے اور عدالتی اوقات کے بعد بھی کام کرے جلد سے جلد یعنی چار ہفتے میں الیکشن سے قبل فیصلہ بھی سنا دیا جائے اور اوپر سے مانیٹرنگ جج بھی بٹھا دیا گیا ہے خواجہ حارث نے وہیں کہہ دیا کہ’’ میرے لئے اس طرح مقدمہ لڑنا ممکن نہیں ہوگا مجھے مقدمہ سے الگ ہونا پڑے گا ‘‘اس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں اور دھمکی دے رہے ہیں‘‘ ،نواز شریف نے کہا ہے کہ’’ خواجہ حارث نے جو باتیں کہی ہیں میں ان سے متفق ہوں اور اس طرح کے حالات کے اندر اس طرح مقدمہ چلانا فیئر ٹرائل کے بالکل خلاف ہے اگر فیئر ٹرائل ہے تو پھر مجھے حق پہنچتا ہے کہ میں مرضی کا وکیل کروں۔اس حق سے مجھے کوئی محروم نہیں کر سکتا‘‘ ۔ میاں نواز شریف بار بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ انھیں جیل جانے سے ڈرایا جا رہا ہے اور سیاسی مخالفین ان کو سزا دینے کے بارے میں فیصلے سنا رہے ہیں ۔ پچھلے 9 ،8 ماہ سے میاں نواز شریف کے اعصاب کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ میاں نواز شریف جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں اٹک قلعے کی قید کاٹ چکے ہیں تو موجودہ دور میں بھی جیل کاٹنے کا حوصلہ موجود ہے اس لئے اس لئے انھیں کوئی ڈرا دھمکا کر اپنے مطلب کی ’’ڈیل‘‘ یا ’’این آر او‘‘ کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔نواز شریف نے ملک سے راہ فرار اختیار کرنی ہوتی تو وہ بہت پہلے ملک چھوڑ چکے ہوتے لیکن جس باقاعدگی سے وہ احتساب عدالت میں پیش ہو رہے ہیں، اس سے ان کے حوصلے کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ میاں نواز شریف نے تہیہ کررکھا ہے کہ وہ جیل چلے جائیں گے لیکن کسی کے سامنے اپنا سر نہیں جھکائیں گے۔ وہ بھی نامور ادیب ، خطیب و صحافی آغاشورش کاشمیری کی طرح جیل کو حجلہ عروسی سے کم نہیں سمجھتے۔ ان کے خیال میں سیاست میں جہاں’’ تخت ‘‘ہے وہاں’’ تختہ دار‘‘ بھی ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اپنے دور میں میاں نواز شریف کو تختہ دار پر تو لٹکا نہیں سکے ان کو ’’جلاوطنی ‘‘ کی زندگی گذارنے پر مجبور کر دیا نواز شریف تو وطن واپس آگئے لیکن جنرل پرویز مشرف کے لئے پاکستان کی سرزمین تنگ ہو گئی۔ ان کے لئے اپنے وطن آنا ناممکن بنا دیا گیا۔ایک طالع آزما پر آئین کا آرٹیکل 6 لگانے کی سزا تو میاں نواز شریف نے بھگت ہی لی ہے اقتدار سے محرومی کے بعد ’’ناکردہ‘‘ گناہوں کی سزا بھگتنے کی تیاریاں کر رہے ہیں لیکن جنرل پرویز مشرف کو آئین شکنی پر دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا ہے ۔لہذا ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں نگران حکومت میاں نواز شریف کا نام ای سی ایل پر ڈال دے لیکن اسے یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ میاں نواز شریف جیل کی صعوبتوں سے خوفزدہ ہو کر اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے’’ووٹ کو عزت دو ‘‘کی تحریک کو نتیجہ خیز ثابت کریں گے۔ بیگم کلثوم نواز ایک بہادر خاتون ہیں جومیدان سیاست کی ایک بہادر خاتون ہیں اس وقت زندگی کی جنگ لڑ رہی ہیں ۔ میاں نواز شریف بھی جرات مند سیاست دان ہیں جنہوں نے ہر قسم کے حالات میں سیاسی قبیلے کے لوگوں کو باوقار طریقے سے زندہ رہنا سکھایا ہے ایک طرف اڈیالہ جیل میں ان کے لئے سیل کی تزئین و آرائش کی جا رہی ہے تو دوسری طرف وہ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی علالت کا تکلیف دہ وقت بڑے حوصلے سے گذار رہے ہیں۔وقت کا ’’جبر ‘‘اور حالات کی’’ سنگینی ‘‘ نواز شریف کو توڑ پھوڑ نہیں سکی وہ موجودہ صورت حال میں ’’چٹان‘‘کی مانند کھڑے ہیں ان کے سیاسی مخالفین بھی میاں نواز شریف کی ثابت قدمی پر حیران و پریشان ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ نگران حکومت آنے والے دنوں میں میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر ان کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کا فیصلہ کرتی ہے یا اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرتی اس کے لئے ہمیں کچھ دن انتظار کرنا پڑے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024