ریحام خان کی کتھا!
اس سے پہلے ملک کی ممتاز شاعرہ کشور ناہید نے اپنی سوانح عمری ”ایک بُری عورت کی کتھا“ لکھی ہے۔ ایک نامور شاعرہ کا اپنے آپ کو بُرا کہنا اقبال جرم کے زمرے میں نہیں آتا۔ اسے زیادہ سے زیادہ شاعرانہ تعلی یا شان استعنا کہا جا سکتا ہے۔ وہ یقینا اتنی بُری بھی نہیں ہیں۔ ریحام خان کی وجہ شہرت کچھ اور ہے۔ وہ ملک کے ”سلیبرٹی“ عمران کی سابقہ بیوی ہیں۔ تحریک انصاف کے پریس سیکرٹری فواد چودھری نے یہ کہہ کر کہ عمران خان کا کتا شیرو بھی مشہور ہو گیا ہے‘ ریحام کی شہرت کو گہنانے کی کوشش کی ہے۔ اس قسم کے تقابلی جائزہ کو Unchable Remarks ہی کہا جا سکتا ہے۔ شیکسپئر نے اسے Unkindestکہا تھا۔جب عمران خان نے ایک مطلقہ عورت سے شادی کی تو ہر طرف سے تنقید اور تبصرے شروع ہو گئے۔ ایک مقبول عوامی لیڈر کا ساتویں محرم کو نکاح پڑھوانا کئی اعتبار سے تکلیف دہ تھا۔ آرمی پبلک سکول کا سانحہ بھی تازہ تھا۔ اس وقت تک قوم کے آنسو بھی خشک نہ ہوئے تھے۔ خان صاحب تھوڑا سا صبر اور سوچ بچار کر لیتے تو انکے حق میں بہتر ہوتا۔ خان کی اس دلیل کو کہ شادی اس کا ذاتی معاملہ ہے‘ کسی نے قبول نہ کیا۔ ایک مشہور لیڈر اور وزارت عظمیٰ کے خواہشمند شخص کی زندگی کا کوئی پہلو بھی پرائیویٹ نہیں ہوتا۔ اسے پبلک پراپرٹی سمجھا جاتا ہے۔
بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اسے ”پلانٹ“ کیا گیا تھا۔ دولت‘ شہرت اور اقتدار کی بھوکی عورت کو خریدنا چنداں مشکل نہیں ہوتا۔مبینہ طور پر اس نے بنی گالا پہنچتے ہی گل کھلانا شروع کر دیئے۔ علیم خان‘ ترین ٹائپ امیر لوگوں سے چندے کے نام پر کروڑوں روپے اینٹھ لئے۔ خان کو بھی اپنی اداﺅں سے مسحور اور محصور کرنا چاہا‘ لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چل نہ سکا۔ باخبر حلقوں نے اسے بتایا کہ وہ ایک بہت بڑی سازش کا شکار ہونےوالا ہے۔ وہ بروقت سنبھل گیا اور محبت کی شادی طلاق پر منتج ہوئی۔
اس محتصر مدت میں وہ بہت کچھ دیکھ چکی تھی۔ بہت کچھ جان گئی تھی۔ چاہتی تو سارے ”راز“ فوراً افشا کر دیتی مگر سکرپٹ کے مطابق یہ کام اسے الیکشن سے چند ہفتے پہلے کرنا تھا۔ ایک ایسا بم چلانا تھا جس سے خان کے اوسان خطا ہو جاتے وہ سنبھل نہ پاتا۔ الیکشن کمپین کی بجائے اپنی صفائیاں پیش کرتا رہتا۔ آخری ضرب لگانے سے پہلے پلانرز نے چند ”شرشریاں“ بھی چھوڑیں۔ بعض مخالف لوگوں سے کہلوایا گیا کہ خان نشے کا عادی ہے۔ بغیر چرس پیئے اسے نیند نہیں آتی ۔ سیتاوائٹ اور زینت امان کے قصوں کو دہرایا گیا۔ ایک شعوری کوشش کی گئی کہ اسے راسپوٹین مائنڈ شخص کے طورپر پیش کیا جائے۔ اسکی اپنی ممبر قومی اسمبلی گلالئی سے الزام لگوایا گیاکہ خان اسکی زلف گرہ گیر کا اسیر ہے اور اسے فون پر بے ہودہ پیغامات بھیجتا ہے۔ چند ہفتوں کی ہاﺅ ہو اور شور و شین کے بعد لوگوں کو پتہ چل گیا کہ وہ عورت کسی کی انگیخت پر ڈرامہ کر رہی ہے تضاد بیانی کا شکار ہے۔ اس بے چاری کو اب احساس ہوا کہ سیاسی شطرنج کے کھیل میں وہ محض ایک مہرہ تھی۔ فریب وعدہ فردا کے جال میں بری طرح جکڑی جا چکی ہے۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ جو لے چکی تھی سو لے چکی تھی۔ آگے گھپ اندھیرا ہے۔ چنانچہ غصے کے عالم میں اب اس نے اپنے مربیوں اور محسنوں کو ہی کوسنا شروع کر دیا ہے۔ پہلے ایم این اے تھی‘ اب راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری۔ اس تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ لوگ اس سے سبق نہیں سیکھتے۔ اگر ریحام خان ”صف شہدائ“ پر نظر ڈال لیتی تو شاید اس جال میں نہ پھنستی۔ کتاب لکھنے کیلئے جو اسے ”پہلی قسط“ ملی ہے وہ تو کتاب چھاپنے پر صرف ہو گئی ہوگی۔ برطانیہ کے پبلشرز نے Lible کے خوف سے اسے چھاپنے سے انکار کر دیا۔ ترکی یا پاکستان میں اسے زرکثیر خرچ کرنا پڑے گا۔ کتاب ہاتھوں ہاتھ نہ بھی بکی تو لکھوانے والے اس کو خرید کر ملک کے کونے کونے میں پہنچا دیں گے۔
کتاب تہلکہ نہ مچا سکی کیونکہ اس میں ڈرامے اور سسپنس کا عنصر بتدریج ختم ہو چکا ہے۔ مسودہ لیک ہو گیا‘ابھی سے تبصرے شروع ہوگئے ہیں۔ گویا الیکشن تک بم مکمل طورپر ”ڈی فیوز“ ہو چکا ہوگا۔ اس میں جو فحاشی ہے‘ اس سے بھی لوگ حظ اٹھا چکے ہونگے۔گو مسودہ کتابی شکل میں ہنوز ”منصہ شہود“ پر نہیںآیا‘ لیکن اسکے تمام اہم حصے اخباروں میں چھپ چکے ہیں۔منصوبہ سازوں نے اب کے بڑی سوچ بچار سے کام لیا ہے۔ چونکہ خان کھلنڈرا تو پہلے سے مشہور ہے اس لئے اس کے افئیرز کے علاوہ بھی چند چونکا دینے والے واقعے لکھے گئے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ کسی نہ کسی رنگ میں اُس کا تعلق جوڑا گیا ہے۔ جو لوگ اُسے ملتے تھے‘ جس قسم کی باتیں اور پلاننگ ہوتی تھی‘ ریحام صرف اسکی عینی گواہ ہے۔ محترمہ لکھتی ہیں کہ طلاق کی ایک وجہ اُس کا سُنی ہونا تھا۔ عمران کے اردگرد دوسرے مسالک کے لوگ براجمان ہیں۔ چونکہ منصوبہ سازوں کو پتہ تھا کہ شاہ محمود‘ ترین، علیم خان وغیرہ بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں شیعہ نہیں ہیں اس لئے ایک نئی اپج نکالی گئی۔ محترمہ نے اپنے آپکو دیوبندی مکتبہ فکر سے منسلک کیا ہے۔ حیران کن بات ہے کہ جو عورت مغرب میں پلی بڑھی ہو بغیر آستین کے لباس پہنتی ہو۔ ٹائٹ جینز میں دیکھی گئی ہو وہ اپنے آپکو راسخ العقیدہ، قدامت پسند عورت ظاہر کر رہی ہے۔ لکھتی ہے عمران خان نے اسے ڈوپٹہ نہ اوڑھنے کا کہا تھا۔ عمران کی موجودہ بیگم تو عملاً برقع پہنتی ہے‘ خان کم از کم اس سے وہ ہی اتروا لیتا۔
کہتے ہیں عورت جب انتقام لینے کا ارادہ کرتی ہے تو وہ بہت خطرناک ہو جاتی ہے۔ اس حد تک ریحام کا غم و غصہ سمجھ میںآتا ہے۔ جس طرح اسے طلاق دی گئی اس سے تضحیک کا پہلو نکلتا ہے۔ وہ لندن گئی تو طلاق نے ہتھرو ائر پورٹ پر اُس کا سواگت کیا‘۔فرسٹ لیڈی بنتے بنتے رہ گئی۔ منصوبہ سازوں کی اپنی ترجیحات ہونگی لیکن ایک بپھری ہوئی زخم خوردہ عورت کا انتقام بھی کتاب لکھنے کا محرک بنا ہے۔ مقصد خان کو وزیراعظم بننے سے روکنا ہے۔ ایک لفظ میں اس کو ”اگر میں نہیں تو تم بھی نہیں“ کہا جا سکتا ہے۔
کتاب کو معتبر جامع اور چوسی بنانے کےلئے ضروری تھا کہ خان کے ساتھیوں سازندوں کا بھی ذکر کیا جائے۔ وسیم اکرم‘ زلفی بخاری‘ جمائما اور اسکے نوجوان فرزند کو بھی ہدف تنقید بنایا گیا ہے عمران کے گھر کو حرم کہا گیا ہے جہاں مہ وشوں، حسینوں‘ گل رخوں کا جمگھٹالگا رہتا ہے۔ اس قبیل اور قماش کے لوگ کچھ پانے کیلئے بہت کچھ کھو دیتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا اقدام ہے اور اسکے بہت مضمرات ہیں۔ محترمہ سے پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی آپ خان کے ساتھ چپکی رہیں۔ آپ اپنے آپ کو مذہبی عورت گردانتی ہیں۔ اس ”بے حیائی“ کے سمندر میں کیسے گزارا کیا ؟چاہیے تو یہ تھا کہ خان کے ایکشن سے پہلے ہی طلاق اس کے منہ پر دے مارتیں۔ ایک الزام یہ بھی ہے کہ کتاب جاتی اُمرا والوں نے لکھوائی ہے۔ اس کو چھپوا بھی وہ ہی رہے ہیں۔ انہوں نے تردید کی ہے۔ کتاب کس نے لکھوائی ہے اس کا ایک لٹمس ٹیسٹ ہے۔ ظاہر ہے کہ ریحام خان جیسی عورت ازخود تو کتاب تصنیف نہیں کر سکتی‘کسی نہ کسی سے لکھوائی ہو گی۔ بالکل ایسے جیسے ایوب خان کی کتاب ”فرینڈز ناٹ ماسرز“ الطاف گوہر نے لکھی تھی۔پرویز مشرف کی کتاب الطاف گوہر کے بیٹے ہمایوں گوہر نے لکھی۔ اگر محترمہ اس شخص کا نام ظاہر کر دیں تو پتہ چل جائےگا کہ یہ کس کے ذہنِ رساکا کارنامہ ہے۔
وسیم اکرم کی مرحومہ بیوی کے متعلق انتہائی غلیظ الفاظ ستعمال کئے گئے ہیں۔ جمائما کے بیٹے کو ملوث کیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ بھی بہت سے لوگوں پر گند اُچھالا گیا ہے۔ ان سب نے ہتک عزت اور ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ کیا ریحام کے پاس اس قسم کے ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ وہ الزامات کو سچ ثابت کر سکے۔ جرمانہ ہونے کی صورت میں یہ عورت دے نہیں پائے گی۔ جب یہ امداد طلب نظروں سے مُڑ کر کتاب کے محرکوں کو دیکھے گی تو وہ اسے کہیں نظر نہیں آئینگے۔ وہ آج تک بڑے بڑے وفاداروں اور قربانی دینے والوں کو نظر نہیں آئے اس کوتاہ نظر عورت کوکہاں دکھلائی دیں گے۔
آخری بات! کیا عمران کے سیاسی کیرئیر پر یہ کتاب کوئی اثر ڈال سکے گی؟ ہمیں ایک واقعہ یاد آیا ہے۔ ایک مرتبہ ایک خوبصورت امریکی ایکٹرس قومی جھنڈے کو بکنی سوٹ بنا کر ساحل سمندر پر نہانے گئی۔ پولیس نے اسے قومی پرچم کی توہین کے جرم میں گرفتار کر لیا۔ مقدمہ چلا تو جج نے اسے باعزت بری کردیا اس نے لکھا جس کا اردو ترجمہ اس طرح ہے۔
(بکنی بنانے سے قومی جھنڈے کی شان کم نہیں ہوئی، کچھ اور بڑھ گئی ہے۔ سیتا وائیٹ‘زینت امان، حرم ، گلالئی‘کچھ بھی خان کے قدم روک نہیں سکے۔ ہمارے خیال میں یہ کتاب اسے مزید اُبھارے گی، ڈبو نہیں سکتی۔