پیوستہ رہ شجرسے اُمید بہار رکھ
الیکشن 2018ءکے لئے میدان لگ چکا ہے، سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے اُمیدواروں کے ناموں کا اعلان بروقت نہیں کیا۔ سو اُن کی جانب سے لگ بھگ اُن تمام خواہش مندوں نے کاغذات نامزدگی داخل کروا دئیے ہیں جو پارٹی ٹکٹوں کے خواہش مند ہیں۔ اِن دنوں کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔ عام طور پر اُمیدوار مخالف سیاسی جماعت کے اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی پر اعتراضات اُٹھاتے ہیں جیسا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے مریم نواز شریف، سردار ایاز صادق سمیت دیگر کے خلاف ریٹرنگ افسر کے سامنے اعتراضات کئے گئے، جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری کی جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کے اُمیدواروں کی جانب سے عمران خان کے خلاف صادق امین نہ ہونے اور اولاد کے خانہ میں سیتاوائٹ کے بطن سے بیٹی ٹیریان کا اندراج نہ کرنے کا اعتراض کیا گیا ہے۔ لیکن سیاسی جماعتوں کے اپنے اُمیدواروں کے حتمی فیصلے مناسب وقت پر نہ کرنے کی وجہ سے ایک ہی پارٹی کے ایک حلقہ سے ٹکٹ کے حصول کے بعض اُمیدواروں نے اپنے مخالفین کے کاغذات پر اعتراضات کروائے ہیں جس سے اُن کے درمیان تلخی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان میں جس طرح جمہوریت آئیڈیل نہیں ہے اُسی طرح سیاسی جماعتوں کا ”نظم“ بھی آئیڈیل نہیں ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے اندر شفاف الیکشن کروانے کی طرف کوئی توجہ دی جاتی ہے۔
2013ءسے 2018ءکے درمیان اقتدار کے دروازے پر دستک دینے والی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو پارٹی الیکشن کے سلسلے میں اپنے دو چیف الیکشن کمشنروں جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد اورسید تسنیم نورانی کی ناراضگی اور پھر پارٹی سے بےدخلی برداشت کرنا پڑی۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے اب عام لوگ پارٹی بنا لی ہے جو کہ استقلال پارٹی کے چیئرمین کی کاوش سے بنائے سیاسی اتحاد ”پاکستان پیپلز موومنٹ“ کا حصہ ہے۔
یہاں یہ تحریر کرنا بے جا نہ ہو گا کہ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد پاکستان پیپلز موومنٹ کے چیئرمین اور سید منظور علی گیلانی سیکرٹری جنرل ہیں جبکہ 19 رکنی اس جماعت میں خان امان اللہ خان کی مسلم لیگ قیوم، ڈاکٹر قاری اشفاق اللہ کی مسلم لیگ قاسم، جوزف فرانسس کی پاکستان نیشنل کرسچین پارٹی ، منظور بھٹی کی تحریک وفاقی پارٹی و دیگر شامل ہیں۔ صفر جمع صفر جمع صفر قسم کی ان سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد نے ”اعلان لاہور“ جاری کیا جس میں اعلان کیا کہ 25 جولائی کا الیکشن ایک پلیٹ فارم اور ایک انتخابی نشان پر لڑیں گے۔ ایک چار جماعتی اتحاد چودھری شجاعت حسین نے بھی قائم کر رکھا ہے جس میں مسلم لیگ (ق) پاکستان عوامی تحریک، مجلس وحدت المسلمین اور سُنی اتحاد کونسل شامل ہیں۔ چودھری صاحب نے اس میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو بھی لانے کی ایک کوشش کی تھی لیکن وہ جماعت اسلامی کو متذکرہ بالا دونوں اتحادوں سے نسبتاً بہتر انتخابی اتحاد متحدہ مجلس عمل میں شامل کروانے میں کامیاب رہے ہیں۔
متحدہ مجلس عمل 2002ءمیں خیبر پختونخوا میں حکومت کر چکی ہے اور اس مرتبہ بھی کے پی کے اور بلوچستان میں بہتر نتائج حاصل کرنے کے بارے میں پُرامید ہے جبکہ پنجاب اور سندھ کے حوالے سے بھی اُن کے خاصے دعوے ہیں۔ اُدھر سندھ میں انٹی پیپلز پارٹی بننے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کو پنجاب تک پھیلانے کی کوششیں تاحال کامیاب نہیں ہو سکی ہیں لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ چودھری شجاعت کے چار جماعتی اتحاد اور جی ڈی اے کے درمیان بعض نشستوں پر اشتراک عمل کا معاہدہ ہو جائے۔
مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی کے درمیان سیٹ ایڈجسٹ منٹ کی متضاد خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چودھری نے اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا تھا جبکہ مسلم لیگ (ق) کے ترجمان سنیٹر کامل علی آغا نے اُن پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضروری نہیں کہ فواد چودھری کی سطح کے لوگوں کو اس ایڈجسٹ منٹ کے بارے میں علم ہو۔ خیر اب جبکہ سیاسی جماعتوں کے اُمیدواروں کے نام سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور پی ٹی آئی نے پنجاب اور سندھ سے اپنے خاصے اُمیدواروں کے ناموں کا اعلان کرد یا ہے اُن سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ پی ٹی آئی نے گجرات میں چودھری پرویز الٰہی اور چودھری مونس الٰہی کے مقابلے میں اپنے امیدوار نہیں دئیے ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ جہاں تک حکومت سے سبکدوش ہونے والی حکومتی پارٹی مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے۔ اس کے اُمیدواروں کی فہرست لگ بھگ تیار کی جا چکی ہے تاہم اس کا باضابطہ اعلان تاحال نہیں کیا جا سکا۔ بیگم کلثوم نواز کی لندن میں علالت نے مسلم لیگ (ن) کے لئے پریشان کن صورتحال پیدا کر دی ہے ۔ نواز شریف ، مریم نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز شریف، سلمان شہباز شریف سمیت پرویز ملک، شائستہ پرویز ملک اور عارف خان سندھیلہ لندن جا چکے ہیں۔
پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کے اعلان کے بعد جس طرح پی ٹی آئی کے اندر طوفان اُٹھا اور ٹکٹوں کی تقسیم کو غیر منصفانہ قرار دیا۔ بالخصوص شعبہ خواتین کی نشستوں کے حوالے سے بے پناہ اعتراضات سامنے آئے تھے جن کی دادرسی کے لئے خود عمران خان سامنے آ گئے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ خواتین کی مخصوص نشستوں کی پی ٹی آئی کی فہرست پر نظرثانی کی جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) میں اس حوالے سے شور و غوغا نسبتاً کم ہے لیکن بہرحال موجود ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی ٹکٹوں سے محروم رہنے والی خواتین کی فریاد سننے کے لئے ایک کمیٹی بنا دی ہے جس میں خواجہ سعد رفیق، رانا ثناءاللہ خان، بیگم نزہت صادق، بیگم ذکیہ شاہنواز، سیما جیلانی و دیگر شامل ہیں۔ آیا فریادیوں کی داد رسی ہو گی؟ اگلے چند روز تک حقیقت سامنے آ جائے گی۔ بہرحال تمام ہی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو اپنی اپنی جماعتوں کے اندر رہتے ہوئے آواز اُٹھانے کا حق ضرور استعمال کرنا چاہئے لیکن یہ بھی یاد رکھیں۔ پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ!