منگل ‘ 4 شوال 1439 ھ ‘ 19 جون 2018ء
ابر رحمت نے عید کی خوشیاں دوبالا کر دیں
عید کے پُرمسرت لمحات سال کے گرم ترین مہینہ جون میں آئے وہ بھی وسط جون میں جب گرمی بام عروج پر ہوتی ہے۔ درجہ حرارت عام طور پر محکمہ موسمیات کے مطابق 45 سے 50تک رہتا ہے۔ حقیقت میں یہ 50 سے اوپر ہی ہوتاہے۔ محکمہ موسمیات والے ذرا کھڑے ہوکر ٹمپریچر چیک کریں تو انہیں پتہ لگے کہ گرمی کتنی ہے اور اس کا زور کتنا ہے۔ بہرکیف اس سال 18/17/16 جون عید کے تین ایام گرم ترین موسم میں آئے مگر رحمت خداوندی بھی جوش میں رہی۔ چاند رات کو ہی بادصرصر نے بادنسیم کی شکل اختیار کر لی۔ سے ہی موسم کا مزاج عاشقانہ ہو گیا۔ ملک بھر میں درجہ حرارت میں واضح کمی آئی اور یوں عید کے تین دن کراچی تا خیبر کے عوام نے مست ماحول میں گزارے۔
موسم سہانا ہو تو شہری کب آرام سے گھروں میں بیٹھتے ہیں سو یہی وجہ تھی کہ تفریح گاہوں اور پارکوں، میں شہری ٹوٹ پڑے۔ کراچی میں سمندر کے کنارے بھی یوں لگ رہا تھا پورا شہر اُمڈ آیا ہے۔ یہی حال لاہور کے باغات کا تھا۔ یوں عید کے یہ تین ایام سکون سے گزرے۔ اب اس کے بعد وہی چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات کا سماں ہو گا۔ وہی آگ برساتا سورج اور لوڈشیڈنگ کے ستائے غریب لوگ ہوں گے۔ مگر جو وقت اچھا گزرے اس پر شکر ادا کرنا چاہئے ورنہ عید کے یہ ایام بھی گھروں میں دبک کر گزارنے پڑتے۔ بچے تو خوش ہیں کہ انہوں نے خوب انجوائے کیا۔ اور گھریلو خواتین نے بھی راحت کا سانس لیا۔
٭........٭........٭
علی ترین کو شکست دینے والے سابق مسلم لیگی ایم این اے کا تحریک انصاف میں شمولیت کا فیصلہ
الیکشن میں ٹکٹوں کے مسئلہ پر مسلم لیگ (ن) بھی تحریک انصاف کی طرح ایک بڑی مشکل میں پھنسی ہوئی ہے۔ جنہیں ٹکٹ نہیں ملا وہ ناراض ہو کر جوابی کارروائیوں پر اُتر آئے ہیں۔ اس کام کی ابتدا تحریک انصاف سے ہوئی ہے۔ سب سے پہلے تحریک والوں نے ٹکٹوں کی تقسیم پر احتجاج کا آغاز کیا۔ بقول شاعر ....
سو خنجر تھے پیوست گلو جب ہم نے شوق کی لے چھیڑی
سو تیر ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص آغاز کیا
ان کا احتجاج کھلاڑیوں کا احتجاج تھا انہوں نے بنی گالہ کے میدان میں ڈیرے ڈالے جس پر کپتان کو شکایات کا جائزہ لینے کا اعلان کرنا پڑا۔ اسکے بعد اب سندھ میں تحریک والوں کا آپس میں اس مسئلے پر میچ پڑا ہوا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) میں بھی حالات خراب ہیں۔
کچھ لوگ تو ہوا دیکھ کر موسم کا اندازہ لگا چکے ہیں۔ وہ پہلی فرصت میں ہی لیگی درخت سے اڑ کر تحریکی منڈیر پر براجمان ہو چکے۔ ایسے مسلم لیگی پرندوں کی پروازیں ہنوز جاری ہیں۔ لودھراں میں کچھ عرصہ قبل جہانگیر ترین کے حلقہ انتخاب میں غضب کا رن پڑا تھا جس میں ایک غیر معروف لیگی کارکن نے علی ترین جیسے سرمایہ دار، زمیندار کو ہرا دیا تھا۔ افسوس ان کا یہ معرکہ بھی ان کی قدر و قیمت نہیں بڑھا سکا اور آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے اس گوہر نایاب کو ٹکٹ کے قابل نہیں سمجھا جس پر اقبال شاہ نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب دیکھنا ہے انہیں وہاں سے ٹکٹ ملتا ہے یا نہیں۔
٭........٭........٭
شاہد آفریدی کے گھر پر شیر کی انکوائری شروع
یہ شیر شاہد آفریدی کا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ بھی جلد ہو جائے گا۔ مگر اس شیر کی شکل میں جو وبال ان کے سر آن پڑا ہے فی الحال اس سے خلاصی کرانے میں انہیں کچھ وقت ضرور لگے گا۔ ہمارے محکمہ وائلڈ لائف والوں کی بھی عجیب کہانی ہے۔ نظرانداز کرنے پر آ جائیں تو مہاجر پرندوں کے شکار پر پابندی کے باوجود ہزاروں سائبیریا سے آئے مہمان پرندوں کے قتل عام پر وہ خاموش رہتے ہیں ایک ایکشن تک نہیں لیتے۔ اور پھرتیوں پر آ جائیں تو گھر میں بیٹھا شیر بھی ان کی نظروں میں آ جاتا ہے۔ اب شاہد آفریدی کے گھر میں شیر کی تصویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر آنے کے بعد اس شیر کو جو پبلسٹی ملی وہ الگ ہے مسلم لیگ والے خوش ہوئے ہوں گے کہ بیٹھے بیٹھائے ریحام کی کتاب کی طرح ان کے انتخابی نشان کی ہر جگہ دھوم مچی ہے۔ لوگ آفریدی کے ساتھ شیر دیکھ کر خود بخود مسلم لیگ (ن) کے انتخابی نشان شیر کو ازبر کر رہے ہیں۔ اب محکمہ وائلڈ لائف والے کہتے ہیں کہ انکوائری ہو گی کہ شیر کس طرح کس قانون کے تحت شاہد آفریدی نے اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے۔ اور وہ بھی زنجیر سے باندھ کر۔ انسان کو شیر اور بکرے میں فرق ضرور ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔ آخر ٹیپو ٹرکاں والے کے ڈیرے پر بھی تو دو شیر ہوتے تھے کیسے کھلم کھلا پھرتے تھے۔ آئس کریم اور قلفیاں تک کھاتے تھے۔ مالک کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے تھے۔ اب دوست احباب کہہ رہے ہیں یہ شیر آفریدی کا نہیں ہے۔ اس کے دوست لائے تھے تو پھر ٹھیک ہے اب دوستوں کو تلاش کریں کون لایا تھا جنگل کے بادشاہ کو بکرا بنا کر۔ یہ کام اب محکمہ وائلڈ لائف والوں کا ہے کہ وہ گھر میں بند جانوروں کو غلامی کی زندگی سے نجات دلائیں اور مہمان پرندوں کے غیر قانونی شکار پر پابندی بھی لگائیں۔
٭........٭........٭
انوشہ رحمنٰ ، ماروی میمن نے مسلم لیگ ن کو ٹکٹ کے لئے درخواست ہی نہیں دی
دونوں خواتین رہنماﺅں کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ نہیں ملا۔ اب انکشاف ہوا ہے کہ ان دونوں نے پارٹی ٹکٹ کے حصول کے لئے درخواست ہی نہیں دی تھی۔ سیاست میں اور خصوصاً مقبول سیاسی جماعتوں میں ٹکٹ دئیے نہیں لئے جاتے ہیں۔ ایسی سیاسی جماعتیں کسی بھی فرد کی محتاج نہیں ہوتیں خواہ وہ اپنی جگہ پر خود کو کتنا ہی ناگزیر سمجھتا ہو۔ کہ سیاسی کارکن ”موج اگر کچھ ہے تو اندرون دریا وگرنہ بیرون دریا کچھ نہیں“۔ ٹکٹ کے لئے درخواست دینے سے عزت پر فرق نہیں پڑتا۔ بلاشبہ بعض لوگوں نے پارٹی کے لئے بڑی قربانیاں دی ہوتی ہیں اور ان قربانیوں کی قدر کی جانی چاہئے اور ٹکٹ کی تقسیم کے وقت ایسے لوگوں کو نہیں بھولنا چاہئے لیکن جماعتی نظم کا تقاضا بھی کوئی چیز ہے۔ پارٹی سے منسلک سیاستدانوں اور کارکنوں کو ٹکٹ لینے کیلئے متعین طریقہ کار کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ علاوہ ازیں ٹکٹ دیتے وقت یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ حلقے میں اُسے کتنی حمایت حاصل ہے۔ سیاسی جماعتوں پر بعض اوقات ایسا عروج بھی آتا ہے کہ وہ کھمبا بھی کھڑا کر دیں تو جیت جاتا ہے۔
پنجابی محاورے کے مطابق ”روئے بنا ماں بھی دودھ نہیں دیتی“ بہرکیف، اگر کوئی سیاسی کارکن قومی و صوبائی اسمبلی کی نشست کو ہی معراج سمجھتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ سیاسی جماعت سے وابستگی یا ان کا کارکن ہونا بھی کم اعزاز نہیں۔ اب جب درخواست ہی نہیں دی تو ٹکٹ کیسے مل سکتا ہے۔ شاید انوشہ رحمنٰ اور ماروی میمن کو مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ میں دلچسپی نہیں۔ یا وہ کہیں اور دیکھ رہی ہیں۔
٭........٭........٭