آئی بی پر اظہار برہمی، جے آئی ٹی ارکان ، انکے اہلخانہ کو ہراساں کرنے کا عمل فوری روکا جائے: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی شکایات کے حوالے سے درخواست کی سماعت ہوئی سپریم کورٹ نے کہا کہ چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف سنگین الزامات ہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کی ہدایت پر جے آئی ٹی کے الزامات پڑھے۔ سپریم کورٹ نے ایس ای سی پی کے ریکاڈ میں ٹمپرنگ کا معاملہ ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔ عدالت نے ہدایت کی ہے کہ ڈی جی ایف آلی اے اس معاملے کو قانون کے مطابق دیکھیں اور عملدرآمد رپورٹ بنائیں۔ جب کہ عدالت نے نیب کی طرف سے نعیم منگی کو جاری کئے گئے شوکاز نوٹس پر کارروائی کو روک دیا ہے۔ عدالت نے آئی بی کے حوالے سے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آئی بی پر الزام ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے ارکان اور ان کے اہلخانہ کو ہراساں کر رہے ہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ بتائیں اب کیا کارروائی ہو گی‘ کس کے خلاف ہو گی اور کس طرح ہو گی۔ عدالت نے منگل کے روز عدالتی کارروائی میں آئی بی افسران کو بھی طلب کر لیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حکومت کے آٹھ مختلف لوگ مختلف چینلز پر جاتے ہیں۔ جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ پر حملے کرتے ہیں۔ اس پر مناسب حکم بھی جاری کیا جائے گا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس پر قانون کی حکمرانی یقینی بنائیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کے ارکان کو ہراساں کرنے کا عمل فوری طور پر روکا جائے ورنہ ہم کوئی ناخوشگوار حکم جاری کرنے پر مجبور ہوں گے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم جے آئی ٹی کو بھی تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے اپنا کام کرے۔ عدالت نے ان کو جو کام سپرد کیا ہے اسے مقررہ وقت پر مکمل کرے۔ جے آئی ٹی کو درپیش مشکلات سے متعلق درخواست کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ جسٹس اعجازافضل کی سرپرستی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی۔ پی ٹی آئی کے وکیل فواد چودھری نے کہا کہ میڈیا میں جے آئی ٹی کی مشکلات سے متعلق آج خبر لگی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کی شکایت ہے ریکارڈ کی ٹمپرنگ کی جارہی ہے۔ ہم اس پرمناسب حکم جاری کریں گے۔ ہم ہر چیز سے آگاہ ہیں صرف مخصوص نہیں ہر چیز لیک ہورہی ہے۔ یہ معاملہ عدلیہ اور جے آئی ٹی کا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ خاموش تماشائی نہیں بنیں گے۔ پہلے بھی کہا تھا آسمان گرے یا زمین پھٹ جائے، کوئی کچھ بھی کہتا رہے ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں، حقائق جانے بغیر بہت کچھ کہا گیا۔ چیئرمین ایس ای سی پی کیخلاف سنگین الزامات ہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایاکہ چیئرمین ایس ای سی پی نے جے آئی ٹی کی طرف سے لگائے گئے تمام الزامات مسترد کردیئے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ٹمپرنگ کے الزامات بھی لگے ہیں۔ کیا ریکارڈ ٹمپرنگ جرم نہیں ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایسا اقدام قانون کے تحت جرم ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے دریافت کیا کہ اس پر تحقیقات کون کرے گا؟ ایک اعلی عہدیدار پر سنگین الزامات ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ نے سیدھے سادھے الزامات کو غلط قرار دیدیا۔ اٹارنی جنرل صاحب آپ سے کسی طرفداری کی توقع نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ میرا ذاتی جواب نہیں، اداروں کی طرف سے تھا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا ٹھیک ہے یہ آپ کا جواب نہیں، مگر ہمیں تکلیف پہنچی۔ جسٹس اعجاز الحسن نے الزامات کی تردید کی۔ آئی بی نے تسلیم کیا کہ ارکان کے کوائف اکٹھے کئے۔ آئی بی کو ایسا اختیار کون سا قانون دیتا ہے؟ آئی بی نے نادرا سسٹم سے بلال رسول کی معلومات لیں، آئی بی نے یہ معلومات بعد میں کس کو دیں؟ آئی بی نے اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے۔ آئی بی ریاست کیلئے کام کرتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ سب سے پہلے آئی بی والا مسئلہ حل کریں۔ اٹارنی جنرل نے کہا جن پرالزامات لگے، ان کو وضاحت پیش کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ آئی بی ہر معاملے میں اپنی ٹانگ کیوں اڑا رہی ہے۔ یہ جرم ہوا ہے اس کی تحقیقات کون کرے گا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس قسم کے جرم کی تحقیقات ایف آئی اے کرتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریاستی اداروں کی غیر جانبداری آپ نے دیکھ لی ایسے میں تحقیقات کا کیا بنے گا۔ ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان کنٹریکٹ پر ہیں، کچھ تو خدا کا خوف کریں، آئی بی کا استعمال نہ کریں۔ جسٹس عظمت سعید نے دریافت کیا کہ کیا آئی بی والے ہمارا ڈیٹا بھی جمع کرتے ہیں؟ کیسے مان لوں کہ میرا ڈیٹا اور مانیٹرنگ نہیں ہوتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے دریافت کیا کہ آئی بی کو کس نے اختیار دیا کہ جے آئی ٹی ارکان کے فیملی والوں کو ہراساں کیا جائے۔ پہلے اس ذریعے کو پکڑیں گے جس نے درخواست گزار کو مواد دیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بہت سے سوالات پوچھنے کا وقت آگیا، اب بتانا ہوگا کہ آئی بی کا کام اور مینڈیٹ کیا ہے۔