وزیراعظم ہائوس میں چیدہ چیدہ مسلم لیگی رہنمائوں کی محفل سجی ہوئی تھی وزیراعظم محمد نوازشریف مسلم لیگی رہنمائوں سے ’’پانامہ پیپرز لیکس‘‘ کے حوالے سے گفتگو کر رہے تھے کہ ان کے ایک قریبی ساتھی جو ہر مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور مشکل صورت حال میں انہیں باہر نکالنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے نے کہا کہ ’’میاں صاحب! مجھے اس بات کا سو فیصد یقین ہے کہ آپ کے خاندان نے لندن میں فلیٹ اپنی حق حلال کی کمائی سے خریدے ہیں یہی وجہ ہے میں آج آپ کے ساتھ کھڑا ہوں اور کھڑا رہوں گا، کہیں آپ سے کوئی ’’بھول چوک‘‘ ہوئی ہے آپ رب العزت سے اپنی کسی غلطی کی معافی مانگیں اللہ تعالیٰ آپ کو ایک بار پھر اس امتحان میں سرخرو کرے گا۔ ایک اورموقع پر دوبارہ ان کی میاں صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ’’آپ کی ایمان افروز گفتگو سن کر میرا حوصلہ بلند ہوتا ہے‘‘ میں میاں نواز شریف کی ان کے قریبی ساتھی سے ہونے والی گفتگو ان کی اجازت کے بغیر شائع کرنے کا ’’جرم‘‘ کر رہا ہوں پہلے بھی اس نوعیت کے ’’جرم‘‘ کرنے پر ان کی ’’ناراضی‘‘ مول لے چکا ہوں لیکن اب یہ سچائی زیادہ دیر سینے سے لگائے رکھنا میرے لئے ممکن نہیں وزیراعظم کا یہ قریبی ساتھی اپنے لیڈر کو ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ دینے کی بجائے ان کی حکومت کی خرابیوں کا برملا ذکر کرنے سے باز نہیں آتا جس کے باعث اسے بھی کبھی کبھار اپنے لیڈر کی ’’سرد مہری‘‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس قریبی ساتھی کا نام مصلحتاً نہیں لکھ رہا سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گے کہ وزیراعظم کے سامنے کون ’’کھری کھری‘‘ بات کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے وزیراعظم محمد نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی قائم کردہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے سامنے پیش ہو کر جہاں سیاسی تاریخ میں ایک نئی مثال قائم کی ہے وہاں انہوں نے پہلی بار کھل کر ان سازشوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لئے پچھلے کئی ماہ سے کی جارہی ہیں ان سے ان کی ’’گورننس‘‘ کے حوالے سے کوئی سوال نہیں کیا جا رہا جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم ان سے ان کے خاندان کے ذاتی کاروبار کے بارے میں سوالات کر رہی ہے اسے تحقیقات کے لئے 13 سوالات دیئے گئے ہیں لیکن وہ اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی کے جانبدارانہ طرز عمل پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اب تو اٹارنی جنرل آف پاکستان اوشتر اوصاف علی نے بھی سپریم کورٹ میں کہہ دیا ہے کہ ’’وزیر اعظم ہائوس کے ٹیلی فون ٹیپ ہو رہے ہیں‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کا ’’گھیرا‘‘ تنگ کیا جا رہا ہے اس کھیل میں تحریک انصاف سمیت کچھ دیگر سیاسی جماعتیں بھی آلہ کار بنی ہوئی ہیں جو وزیراعظم محمد نواز شریف کی حکومت ’’غیر جمہوری‘‘ طریقے سے گرانے کے لئے سرگرم عمل ہیں وزیراعظم محمد نواز شریف نے جوڈیشل اکیڈمی کے باہر پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کا پہلے سے پروگرام بنا رکھا تھا لیکن ان کی پریس کانفرنس ’’تحریری‘‘ بیان تک محدود تھی جو سوالات و جوابات کے بغیر ہی اختتام پذیر ہو گئی دراصل وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپنے تحریری بیان میں الفاظ کا چنائو بڑی احتیاط کے ساتھ کیا تھا۔ انہوں نے ان تمام عناصر کو متنبہ کیا جو پردے کے پیچھے چھپ کر ’’کٹھ پتلیوں‘‘ کا کھیل کھیلتے ہیں انہوں نے ان قوتوں کو بھی اپنا پیغام دے دیا ہے جو انہیں انتخابی میدان میں تو شکست نہیں دے سکتیں لیکن انہیں عدالتی فیصلے کے ذریعے ’’سیاسی عمل‘‘ سے آئوٹ کرنا چاہتی ہیں انہوں نے جرأت مندی سے جمہورت کی بساط لپیٹ دینے کے خواہش مند عناصر کو عوام کے فیصلے کو روند کر مخصوص ایجنڈے چلانے والی فیکٹریاں بند کرنے کی بھی وارننگ دی ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ فیکٹریاں بند نہ کی گئیں تو آئین و جمہوریت ہی نہیں خدانخواستہ ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے ان افسران کے سامنے پیش ہو کر ایک عمدہ مثال قائم کی ہے جن کی ترقی ان کے قلم سے ہوتی ہے۔ وزیراعظم کا تو آئینی استحقاق بھی ہے وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کی بجائے اسے وزیراعظم ہائوس بلوا لیں لیکن انہوں نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر جہاں اپنی عزت و توقیر میں اضافہ کیا ہے وہاں یہ بھی ثابت کر دکھایا ہے عوام کا منتخب وزیراعظم احتساب کے لئے پیش ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا یہی کیفیت وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی ہے جو پچھلے کئی سالوں سے بیماریوں سے لڑ رہے ہیں 16،16 گھنٹے کام کرتے ہیں نے کمر کے درد کو جواز بنا کر ہسپتال میں داخل ہونے کی بجائے جے آئی ٹی میں پیشی کو ترجیح دی وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف تقریباً پونے چار گھنٹے جوڈیشل اکیڈمی میں رہے اور جے آئی ٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کیا وزیراعلیٰ نے فی البدیہہ گفتگو کرنے میں ید طولہ رکھتے ہیں انہوں نے انتہائی مدلل انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور مختلف ادوار میں شریف خاندان کے کڑے احتساب کا ذکر کیا اور وزیراعلیٰ نے اپنے والد مرحوم میاں محمد شریف کی محنت، دیانت اور امانت کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اور میرے بڑے بھائی محمد نوازشریف کو فخر ہے کہ ہم ایسے باپ کے بیٹے ہیں جن کا نام امانت اور دیانت کے ساتھ جڑا ہوا ہے ہمارے خاندان کا ایک بار احتساب ذوالفقار علی بھٹو کے دور، دو بار محترمہ بے نظیر بھٹو کے ادوار اور چوتھی بار ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں ہوا ہے۔ اور آج پھر پانچویں بارہمارے خاندان کا احتساب ہو رہا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم محمد نواز شریف نے مسلم لیگی رہنمائوں اور کارکنوں کو جوڈیشل اکیڈمی پہنچنے سے روک دیا تھا اس بات کا اندیشہ تھا اگر مسلم لیگی کارکن زیادہ تعداد میں اکٹھے ہو گئے تو انہیں جوڈیشل اکیڈمی کی طرف بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور پھر جوڈیشل اکیڈمی کی کہانی بنائی جائے گی اس کے باوجود ممتاز مسلم لیگی رہنما سینیٹر چوہدری تنویر خان، سینیٹر چوہدری جعفر اقبال، سردار نسیم، محمد حنیف عباسی، ملک شکیل اعوان، پیرزادہ راحت قدوسی، انجم عقیل خان، ذی شان نقوی، ساجد عباسی اور بیرسٹر دانیال چوہدری کی قیادت میں کارکنوں کی ایک بڑی تعداد وزیراعظم محمد نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب کے استقبال کے لئے جوڈیشل اکیڈمی کے قریب پہنچ گئی۔ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، مریم اورنگ زیب نے بھی اپنے وجود کا احساس دلایا۔ دونوں بھائی تمام پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک عام شہری کی طرح جھنڈے کے بغیر ذاتی گاڑیوں میں جوڈیشل اکیڈمی آئے اور اس تاثر کو تقویت بخشی کہ وہ جے آئی ٹی کے بارے میں اپنے تمام تحفظات کے باوجود سپریم کورٹ کے فیصلے سامنے سر تسلیم خم کر رہے ہیں وزیراعلیٰ پنجاب ہائوس اسلام آباد سے جوڈیشل اکیڈمی روانگی کے موقع پر انتہائی پراعتماد دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ وزیراعظم کی پریس کانفرنس پر سب سے پہلے سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنے ردعمل میں قبل ازوقت اسمبلیاں تحلیل کئے جانے کے خدشات کا اظہار کر دیا اگرچہ وزیراعظم نے 2018ء میں 20 کروڑ عوام کی بڑی عدالت اور بڑی جے آئی ٹی لگنے کی بات کی ہے تاہم قبل ازوقت انتخابات کو خارج ازامکان نہیں وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انہیں شریف خاندان کے نجی و ذاتی کاروبار اور معاملات کو الجھایا اور اچھالا جا رہا ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات برملا کہی جا رہی کہ وزیراعظم محمد نوازشریف نے ’’جھک‘‘ کر حکومت کرنے کی بجائے ’’سر‘‘ اٹھا کر ’’سیاسی شہید‘‘ بننے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ اپنی راہ میں آنے والے تمام عناصر سے ایک بار پھر ٹکرا جانے کا فیصلہ کر چکے ہیں جو ان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ وزیراعظم محمد نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے جہاں جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے سوالات کا جواب دیا ہے وہاں انہوں نے بار بار جے آئی ٹی کے ارکان سے استفسار کیا کہ انہیں بتایا جائے کہ انہوں نے اپنے عہدوں پر رہتے ہوئے کیا کرپشن کی ہے؟ جے آئی ٹی جہاں اپنے بعض ارکان کے طرز عمل سے ’’متنازعہ‘‘ بن گئی ہے وہاں جے آئی ٹی نے بھی الزام عائد کیا ہے کہ وزیراعظم ہائوس، آئی بی، ایس سی پی، نیب، ایف بی آر اور وزارت قانون تفتیش کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں جے آئی ٹی کے بعض ارکان کے چنائو پر وزیراعظم محمد نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز سپریم کورٹ کے سامنے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں حسین نواز کے وکیل طارق شفیع کو جس طرح جے آئی ٹی کے ایک رکن نے سپریم کورٹ سے اپنا بیان حلفی واپس لینے کی دھمکی دی تھی یہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے اسی طرح جاوید کیانی کو وعدہ معاف بنانے کی پیشکش کی گئی جے آئی ٹی کو کسی وعدہ معاف گواہ کی تلاش ہے وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ اب ہم تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طرف موڑنے نہیں دیں گے، وہ زمانے گئے جب سب کچھ پردوں کے پیچھے چھپا رہتا تھا اب کٹھ پتلیوں کے کھیل نہیں کھیلے جا سکتے۔ میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہمارے دلوں میں عدالت اور قانون کا بڑا احترام موجود ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بندوق کی طاقت سے اقتدار پر شبخون مارنے والے عدالت اور قانون کے فیصلوں کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور ان کا عدالت اور قانون کے حوالے سے رویہ بھی سب کے سامنے ہے۔‘‘ کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے… وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے وزیراعظم روضہ رسولؐ پر حاضری دینے جا رہے ہیں روضہ رسولؐ پر ختم نبوت کے عقیدہ کا پوری قوت سے تحفط کریں گے سب پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024