مسلم دنیا پہلے ہی انتشارو خلفشار کا شکار تھی ۔57مسلم ممالک قومی ریاست ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے ۔کہیں مسلم امہ کا احساس اور تڑپ دکھائی نہیں دیتی ۔ سعودی ایرانی مسلکی عناد نے وہ گل کھلائے جو دشمن بھی نہ کرپائے ۔ دونوں برادر مسلم ممالک یہودونصاری کی حکمت عملی پر گامزن ہو کر دیگر برادار ممالک کے متحارب گروپوں کی عسکری تربیت سمیت مکمل پشت پناہی کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں عراق، لیبیا، تیونس، شام، مصر اپنا ریاستی ڈھانچہ برقرار رکھنے سے بھی قاصر ہیں اور اسرائیل کے لئے ایک ترنوالہ ہیں۔
کیا ایران اور سعودیہ میں ایسی صلاحیت ہے کہ ان مسلم ریاستوں کو دوبارہ کھڑ اکر سکیں۔ دراصل یہ سب کچھ گریٹر اسرائیل کے قیام کےلئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ جیسے 1967میں عرب چیمپئن بننے کے زعم میں جمال ناصر نے عرب اتحاد کا نعرہ لگا کر بغیر عسکری تیاری کے اسرائیل کو للکارا۔جناب چھ روز بھی مزاحمت نہ کر سکے۔ چھوٹا سا اسرائیل ایک بڑے خطے پر قابض ہوگیا ۔ مسلم مخالف ٹرمپ کا امریکی صدر بننا پنٹاگون اور تل ابیت کی مشترکہ پالیسی کا حصہ ہے۔ وسط مئی میں سعودیہ اور اسرائیل کا دورہ بھی اس پالیسی کا تسلسل ہے ۔ امریکی صدر مسلم مخالف نعرے پر برسراقتدار آئے پھر لیلیٰ اقتدار کی زلفوں کو سنوارنے کےلئے پہلا حکم نامہ چھ مسلم ممالک کے لئے ویزوں کی پابندی کا حکم صادر فرمایا۔ اس کے بعد اگر کوئی مسلمان خیر کی توقع رکھتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں ہے۔ حیف ہے سعودی حکمرانوں پر جنہوں نے مسلم ممالک کی کانفرنس میں حضرت ٹرمپ کو وہ مقام دیا جو مسلم ریاستیں خادم الحرمین شریفین کو دیتے ہیں۔ چشم فلک نے دیکھا کہ دنیا میں جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار امریکی سربراہ نے اس محفل میں اس ڈکٹیٹر کی سب سے زیادہ تعریف وتوثیق کی۔
جس نے اپنے ملک کی خالص جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر انسانی حقوق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک میں جمہوریت کو شجر ممنوعہ قرار دیا۔ درجنوں جمہوری کارکنوں کو تہ تیغ کیا اور ہزاروں کو پابند سلاسل کر رکھا ہے مگرصدر ٹرمپ نے جوہری قوت کے حامل جمہوری وزیراعظم کو نظرانداز کرکے مسلم بغض کااظہار کیا۔ کانفرنس میں ایران کے خلاف زہر پاشی کی ہی گئی مگر جاتے جاتے گلف تعاون کونسل پر بھی ضرب لگاگئے جس کے نتیجے میں کانفرنس میں شامل چھ ممالک نے قطر سے اپنے سفیر واپس ہی نہیں بلائے بلکہ اس کی زمینی اور فضائی ناکہ بندی بھی کر دی گئی۔ متحدہ عرب امارات اور سعودیہ کی اس مشترکہ کارروائی کی اسرائیل نے حمایت کی ہے ۔ قطر پر الزام ہے کہ وہ داعش، القاعدہ، حماس اور اخوان المسلمین کی حمایت کرتا ہے۔دہشت گرد وں کی فہرست میں قطر میں موجود کاروباری حضرات، سرکاری افسران، قطر کے حکمران خاندان کے علاوہ جلا وطن مصری مذہبی رہنما یوسف القرادوی بھی شامل ہیں جو اخوان المسلمین کے رہبر ہیں۔ فہرست میں عبدالعزیز العتیہ بھی شامل ہیں جو بلیئرڈ اور سنوکر فیڈریشن کی سربراہ قطر کی اولمپک کمیٹی کے رہنما تھے ۔قطر فٹ بال ایسوسی ایشن کے سربراہ عبدالرحمان، جناب عبداللہ بن خالد جو سابق وزیر ہیںاور قطری حکمران خاندان سے ہیں۔ جہاں تک اخوان المسلمین کا تعلق ہے وہ ایک سیاسی و جمہوری قوت ہے وہ 2012ءمیں مصر میں کامیاب ہوئی۔ مرسی صدر منتخب ہوئے اور اسی طرح حماس کو غزہ اور فلسطین میں عوامی سیاسی قوت تسلیم کیا گیا جبکہ داعش اور القاعدہ جمہوریت کو ہر سطح پر نابود کرنے کے درپے ہے۔ انہیں یکجا کرنا بددنیتی پر مبنی ہے۔ دراصل موجودہ منظرنامہ میں خلیجی ممالک اور عرب دنیا کے لئے چیلنج اخوان المسلمین اور اس کے حمایتی گروپ جو اسلامی جمہوری ریاستوں کے قیام کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ عناصر موجودہ حکمرانوں کی ملوکیت کے نظام سے نجات چاہتے ہیں۔ امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے شام میں بشارت الاسد کے خلاف بڑھنے والی قوتوں کو بڑی مقدار میں اسلحہ اور رقوم فراہم کیں جن میں النصر، القاعدہ کے علاوہ دیگر عسکریت پسند تنظیمیں شامل ہیں۔ خلیجی نقشے پر غور کریں تو قطر ایک بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت نظر آرہی ہے۔ گیارہ ہزار مربع کلومیٹر پر محیط اور ستائیس لاکھ نفوس پر مشتمل چھوٹی سی ریاست ہے۔ قطر کا دنیا سے تجارتی زرمبادلہ کی مالیت 1324ارب قطری ریال ہے۔
گیس کے وسیع تر ذخائر ہونے کے باعث خاص اہمیت حاصل ہے۔ گذشتہ برس پاکستان سے سولہ ارب ڈالر مالیت کے ایل این جی گیس کا معاہدہ بھی طے پایا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ دنیا میں کھیلوں کا سب سے بڑا ایونٹ فٹ بال ورلڈ کپ 2022ءقطر میں منعقد ہونے جا رہا ہے جس سے اس کی مقبولیت اور معیشت کو چار چاند لگیں گے۔ یہ اپنے قطر ایئر بیس اور الجزیزہ ٹی وی چینل کی مقبولیت کے حوالے سے خاص مقام رکھتا ہے۔ پھر امریکہ کا خلیجی ممالک میں سب سے بڑا ائر بیس قطر کے علاقے العدید میں قائم ہے اور وہاں اب بھی امریکہ کے گیارہ ہزار فوجی اور دوسرے حکام موجود ہیں۔ وہاں 12500فٹ طویل رن وے کے ساتھ 120ایئر کرافٹ کھڑے ہونے کی گنجائش ہے۔ بظاہر قطر کے حکمرانوں کی خطا یہ ظاہر ہوتی ہے کہ وہ حقیقت پسند اور اعتدال پر مبنی پالیسی پر گامزن ہیں۔
ٹکراﺅ سے گریز کرتے ہیں۔ حق اور انصا ف کا ساتھ دیتے ہیں مگر ان کا الجزیرہ ٹی وی ملوکیت اور ڈکٹیٹرشپ پر مبنی حکومتوں پر تنقید سے گریز نہیں کرتا دوسری جانب سعودی حکمران تمام خلیجی ممالک کو سیاسی طور پر اپنی ذیلی اور طفیلی ریاست کے طور پر تصور کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اوآئی سی، عرب لیگ کے بعدگلف تعاون کونسل بھی منتشرہوگئی۔
قارئین کرام! ہم پر واجب ہے کہ اس نازک صورت حال میں بڑی احتیاط اور شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی بنیادی خارجہ پالیسی کو مقدم رکھیں ۔ حضرت قائداعظم ہمیشہ فلسطینی موقف کی حمایت کرتے رہے۔ اسلامی ممالک کے ساتھ قریبی برادرانہ تعلقات پر زور دیا۔ دو مسلم ممالک کے درمیان اختلاف کی صورت میں ثالثی یا غیر جانب دار رہنے کی تلقین کی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38