چاند نظر آنے کی شہادت کامسئلہ
مملکت خداداد پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے ستر سال ہوگئے ہیںمگر ا س طویل عرصہ کے دوران پورے ملک میں شایدہی کبھی روزہ اور عید ایک ہی دن ہوئے ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نہ حکومتِ وقت اور نہ ہی علمائے کرام نے سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غور کرکے اس کا حل نکالا ہے اور اِس طرح ملت کو تقسیم سے بچانے کے لئے اپنا مثبت کردار ادا نہیں کیا۔شاید ہمارے ارباب اقتدار اور زعمائے ملت کو اس کا احساس نہیں کہ یہ کتنا بڑا جرم ہے۔قرآن مجید کے مطابق مسلمانوں کے درمیان ا فتراق و انتشار پیدا کرنا شرک جیسا کبیرہ گناہ ہے۔ارشاد ربانی ہے:”...وَاتَّقُوہُ وَا¿َقِیمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَکُونُوا مِنَ ال±مُش±رِکِینَ مِنَ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَہُم± وَکَانُوا شِیَعًا...“ترجمہ: ”(مومنو!)اُسی (اللہ)کی طرف رجوع کئے رہو اور اُس سے ڈرتے رہو اور نماز پڑھتے رہو اور مشرکوں میں نہ ہونا (اور نہ) اُن لوگوں میں(ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود فرقے فرقے ہو گئے“(سورة الروم: آیت،31,32)۔لہذا پوری دلسوزی سے حکومت اور اہل علم کی خدمت میںقابل عمل گزارشات پیش کی جاتی ہیں جن پر عمل کرکے خاص طور پر رمضان اور عید الفطر کا چاند دیکھنے کے حوالے سے تقسیم ِملت جیسے گھناو¿نے جرم سے بچا جا سکتا ہے۔
راقم نے 1990ءمیں جب وہ اسلامی نظریاتی کونسل کا سیکریٹری تھا، کونسل کے باقاعدہ ایجنڈے میں یہ بات شامل کروائی کہ عیدین کے مبارک موقع پر بدمزگی اور انتشار سے بچنے کے لئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس باقاعدگی سے صرف پشاور میں ہوا کرے تاکہ عید کے چاند کے بارے میں قرب وجوار سے موصول شدہ شہادتوں کاشرعی جائزہ لے کر حتمی اعلان کیا جاسکے۔ مزید برآں اس ضمن میں عجلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے اور حتمی اعلان سے پہلے بلوچستان کے دور درازعلاقوں مثلاً پسنی، جیوانی،تربت ،پنجگور، اورمارہ وغیرہ سے بھی اطلاعات کی موصولی کا فوری انتظام کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے پاکستان کے جملہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنر صاحبان کو پابند کیا جائے کہ جونہی اپنے علاقوں سے اُنہیں چاند کے بارے میں کوئی معتبر شہادت موصول ہو تووہ وہاں کی مرکزی جامع مسجد کے امام/خطیب صاحب سے تصدیق کرواکرفوری طور پر مرکزی رویت ہلال کمیٹی پشاور کو مطلع کریں تاکہ وہ مزید چھان بین کرسکیں۔ اس مقصد کے لئے تمام ڈی سی صاحبان کے نام اور فون نمبر مشتہر کئے جائیں تاکہ عوام کو اُن سے رابطہ کرنے میں آسانی ہو۔راقم کی اس تجویز پر کونسل کے بعض اراکین بالخصوص علمائے کرام نے اتفاق نہیں کیا اور عذر پیش کیا کہ اُنہوں نے عید کی نماز کی امامت کروانی ہوتی ہے اور علاقہ کی سرکردہ سرکاری شخصیات اُن کے پیچھے نماز ادا کرتی ہیں۔ پشاور جیسے علاقہ سے راتوں رات اُنہیںاپنے شہروں میں پہنچنا محال ہے۔ اس لئے یہ تجویز ناقابل عمل ہے۔میرے خیال میں اگر حکومت اور علمائے کرام تھوڑی سی قربانی دیں اور اخلاص سے کام لیں تو اس پر عمل درآمد بہت آسان ہوسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ پاک فضائیہ کا ایک ہوائی جہاز (C-130) پشاور کے ہوائی اڈہ پر تیار رہے اور جونہی چاند کے بارے میںسرکاری طور پر حتمی اعلان ہو تو وہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اراکین کو لے کر ایک ہی فلائٹ کے ذریعے اُن کو اپنی منزل مقصودکراچی، کوئٹہ، لاہور یا اسلام آباد پہنچادے۔جامع مسجد قاسم علی خان ،پشاور کے خطیب مفتی شہاب الدین پوپلزئی صاحب کو خصوصی طور پر اس بارے میں اعتماد میں لیا جائے تو منزل بفضل تعالیٰ اور بھی آسان ہو جائے گی کہ مسئلے میں اختلاف ہی وہاں سے شروع ہوتاہے۔ اس لئے ملی یکجہتی اور عقلمندی کا تقاضا ہے کہ حکمت عملی کے ساتھ جائے اختلاف کو جائے اتفاق و اتحاد بنایا جائے۔ مزیدبرآں چئرمین رویت ہلال کمیٹی کی تقرری کی مدت متعین کی جائے جو پانچ سال سے زائد نہ ہو۔ مناسب ہوگا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے لئے نئے چئرمین کا بھی انتخاب کیا جائے اور اس کے لئے ملک کے نامور علمائے کرام میں سے کسی کو منتخب کیا جائے۔مرکزی رویت ہلال کمیٹی میں علمائے کرام کے ساتھ فن سے متعلقہ ماہرین کو بھی شامل کیا جائے تاکہ وہ ان شہادتوں کا تیکنیکی طور پر بھی جائزہ لے سکیں۔
میں ارباب اقتدار اور دردِدل رکھنے والے علمائے کرام سے ایک بار پھر اپیل کروں گا کہ اُمت کی فلاح اور یکجہتی کے لئے میری بیان کردہ تجویزکے مندرجہ ذیل تین اہم نکات پر ضرور غور فرمائیں:
1۔مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس مستقل طور پرکرا چی یا اسلام آباد کے بجائے صرف پشاور ہی میںہواکرے جس کے لئے وزارت مذہبی امور ضروری اقدامات کرے تاکہ ملک میں انتشار پیدا نہ ہو۔
2۔چاند نہ نظر آنے کا اعلان سرکاری میڈیا سے گیارہ بجے شب سے پہلے نہ کیا جائے۔
3۔عوام کو اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ ترغیب دی جائے کہ وہ بھی چاند کی جستجو میں رہیں اور جس کسی کو چاند نظر آئے وہ فوری طور پراس کی اطلاع اپنے ضلع کے متعلقہ حکام یعنی ڈی سی کو دیں یہاں یہ بھی امر باعث رہنمائی ہوگا کہ عرب ٹی وی کے مطابق رمضان کا چانددیکھنے کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات(UAE) میں عدالتی کونسل کااجلاس ہواجس میںکونسل کے ممبران کو چاند نظر آنے کی کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی جس کے بعد عرب ممالک میں پہلا روزہ بروز ہفتہ مورخہ 27 مئی 2017 کو ہونے کا اعلان ہوا۔چونکہ پاکستان میں ابھی شرعی عدالتی نظام قائم نہیں ہے، اس لئے اطلاعات یعنیس سرکردہ مقامی علماءسے تصدیق شدہ شہادتوں کی ترسیل کا کام وقتی طور پر تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنر صاحبان سے لیا جاسکتا ہے۔ ا س کے لئے اُن کے ناموں اور ٹول فری نمبروں کو مشتہر کیا جائے تاکہ آئندہ رمضان اور عیدین ایک ہی دن کامیابی و کامرانی سے منائی جا سکیں، وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم۔