کیسی بلندی ، کیسی پستی
بعض علاقے بعض عمارات، واقعات، حادثات ےا اشخاص کے حوالے سے مشہور ہو جاتے ہیں ۔یونان میں اولمپیا کا علاقہ اولمپک کھیلوں کے باعث چار دانگ ِ عالم میں مشہور اور مقبول ہے۔ سو ہم نے بھی اسے جادیکھا۔ یہ دراصل ایلس(Elis) کے قصبے میں کھیلوں کا وہ مشہور زمانہ میدان ہے جہاں اولمپک کھیل منعقد ہوتے تھے۔ اب یہ چھوٹا سا گاﺅں بھی اولمپیا کہلاتا ہے ۔ یہاں یونانی دیوتا زِیَس (Zeus) کا مند ر تھا جو پانچویں صدی قبل مسیح میں تعمیر ہوا ۔زائرین دیوتاسے مرادیں مانگتے اور اسے نذرانے چڑھا تے تھے۔ زِیَس کا 40فٹ بلند دیو ہیکل مجسمہ ہاتھی دانت اور سونے سے بنایا گیا تھااور اس کا شمار قدیم دنیا کے سات عجائبات میں ہوتا تھا۔تاہم اتنے ”بااختیار اورذی وقار دیوتا “ کو اب اس کی جگہ سے اکھاڑ کر عجائب گھر میں منتقل کردیا گیا ہے۔یہ جان کر شدید حیرت ہوئی کی زِیَس اور اس سے بھی پانچ صدی قبل دیو تاﺅں کو پیش کی جانے والی خوراک اور دیگر نذرانوں کی باقیات جو کھدائی میں بر آمد ہوئیں آج بھی عجائب گھر میں موجود ہیں ۔ اولمپیا کے شمال میں پہاڑ تھے اور ان کے دامن میں کھیلوں کا اسٹڈیم تھا ۔ یہ سنگ مرمر کا بنا ہوا تھااور اس میں 60ہزار تماشائی بیٹھ سکتے تھے۔میدان کی لمبائی 214گز اور چوڑائی 32گز تھی ۔ مشرق کی جانب رَتھ دوڑ (Hippodrome) کا میدان تھا جو 806گز لمبا اور 405 گز چوڑا تھا۔ کھلاڑیوں کے لیے ایک جمنازیم بھی تھا ۔اسٹڈیم اور میدان آج بھی موجود ہیں لیکن زیادہ تر غیر فعال ہیں ۔ یہاں پہلے اولمپک مقابلے آٹھویں صدی قبل مسیح میں منعقد ہوئے۔ اس پورے علاقے کو تین صدی عیسوی میں آنے والے پے در پے زلزلوں نے نقصان پہنچایا۔ جنگجو قبائل نے بھی یہاں تباہی مچائی مگر اس کے باوجود اس مقام پر 393ءتک اولمپک کھیل ہوتے رہے جس کے بعد عیسائی باد شاہ تھیو ڈوسیس اول (Theodosius I) نے ان پر پابندی لگادی۔ اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ چھوٹے پیمانے کے کھیل خفیہ طور پر چھٹی صدی عیسوی کے وسط تک ہوتے رہے لیکن ساتویں صدی کے آغاز میں یہ بالکل موقو ف ہوگئے ۔ جب قدیم اولمپک کھیل عروج پر تھے تو یہ جشن پانچ دن تک جاری رہتا ۔ پہلا دن افتتاحی تقریبات کے لیے مخصوص تھا ۔ زِیَس کو قربانی پیش کی جاتی اور حصہ لینے والے کھلاڑی دیانت ،امن اور یگانگت کا حلف اٹھاتے تھے۔ دوسرے دن 20برس سے کم عمر کھلاڑیوں کے مقابلے ہوتے ۔تیسرے دن بالغ کھلاڑیوں کے ،چوتھے دن رتھوں کے اور پانچویں دن زرہ بکتر پہن کر دوڑنے والوں کا مشکل مقابلہ ہوتا تھا۔ اسی دن الوداعی تقریبات زورو شور سے منعقد ہوتی تھیں۔ جدید اولمپکس کی مشعل سورج کی شعائیں ایک آتشی شیشے پر منعکس کر کے پیدا ہونے والی حدت سے روشن کی جاتی ہے۔ یہ مشعل ایک نوجوان یونانی عورت کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو قدیم دیویوں کے لباس میں ملبوس ہوتی ہے۔دیوی اسے ایک نوجوان کو تھمادیتی ہے جو اسے لے کر دوڑنا شروع کرتا ہے۔ ایک مقررہ فاصلے کے بعد وہ اسے دوسرے آدمی کو دے دیتا ہے۔ مشعل ہر وقت روشن رہتی ہے۔ معینہ شہر تک بحری یا ہوائی جہاز سے پہنچتی ہے۔وہاں بھی دوڑنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے تاآں کہ آخری آدمی اسے لے کرزبردست تالیوں کی گونج میں عین افتتاحی تقریب کے موقع پر اسٹڈیم میں داخل ہوتا ہے ۔جب 2004ءمیں ایتھنز میں جدید اولپمک کھیل منعقد ہوئے تو عورتوں اور مردوں کے Shot put(گولا اندازی) کے مقابلے تزئین وآرائش شدہ اصل اولمپک اسٹڈیم میں کرائے گئے ۔تاہم اب بہت سارے کھیل اتنے بڑے پیمانے پر ہوتے ہیںکہ اس اسٹڈیم کی اہمیت بنیادی طور پر تاریخی ہے اور بس ! اولمپیا چھوٹا سا خوبصورت گاﺅں ہے جو پہاڑوں اور جنگلات میں گھِر ا ہوا ہے ۔ سڑکیں اونچی نیچی اور بل کھاتی ہوئی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک پر ہمارا پرانی طرز کا دلفریب ہوٹل تھا۔ یہاں ایک بڑا” آﺅٹ ڈور“ عجائب گھر ہے جہاں کھدائی سے برآمد ہونے والی لگ بھگ 14ہزار چھوٹی موٹی اشیا نما ئش کے لیے رکھی گئی ہیں۔عجائب گھر کی سیر ہمارے علاوہ پورے گروپ نے صبح 9سے 12بجے تک کی ۔ ہم اس لیے نہ جا سکے کہ بس سے اترنے کے کچھ دیر ہمیں بعد محسوس ہو اکہ اِسٹک ( چھڑی) ہاتھ میں نہیں ۔ اس کے بغیر کئی میل کی تفریح ہمارے لیے ممکن نہ تھی۔ خیال تھا کہ چھڑی ہوٹل میں رہ گئی ہے۔ ہم نے گائڈ اِیوا کو اپنا مسئلہ بتا یا تو وہ کندھے اچکا کر رہ گئی جس کا مطلب یہ تھا کہ دور ہ نہیں رک سکتا، آپ اپنا انتظام خود کرلیں ۔ ایوا ِنے یہ بھی بتا یا کہ واپسی پر پورا گروپ دوسرے دروازے سے باہر نکلے گا جو ایک کلومیٹر دور ہے اور بس بھی وہیں ملے گی۔ ہم مجبوراً ٹیکسی پکڑ کر ہوٹل پہنچے۔ اپنا کمرہ، ریسٹورنٹ ، استقبالیہ، لابی ،ہر جگہ چھان ماری مگر چھڑی کا نام و نشان نہ تھا۔ تھک ہار کر عجائب گھر کے دروازے (Exit) پر آکر کھڑے ہوگئے۔ کھڑے بھی کیا ہوئے ، کبھی بیٹھتے ، کبھی ٹہلتے ، کبھی گاتے ، کبھی کچھ پڑھتے اور کبھی محض انگڑائیاں لیتے۔ یوں ہی تین گھنٹے گزارے ۔دروازے کے قریب کھڑی ہوئی بہت سی بسوں میں ہماری بس بھی شامل تھی مگر ڈرائیور ندارد تھا۔ ٹھیک بارہ بجے گروپ باہر نکلا اور اندر کا حال جو مزے لے لے کر سنا یا اس نے ہمارے اندوہ کو دو چند کردیا۔اپنی قسمت کو رو تے ہوئے بس کے اندر داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر” مسرت آمیز کوفت“ ہوئی کہ چھڑی ہماری سیٹ کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ ہم اسے بس سے اترتے وقت لینا بھول گئے تھے۔ اب یہاں اس بات کا افسوس ہوا کہ اگر اِیوا میں تھوڑی سی بھی مروت ہوتی تو وہ ڈرائیور کو فون کرکے معلوم کرلیتی اور اسٹک منگا کر ہمیں عجائب گھر کے دورے میں شامل کر لیتی ۔ اس روز حضرت جگر کے اس شعر پر سے ہمارا اعتماد بالکل ہی اُٹھ گیاکہ
حسن جس رنگ میں ہوتا ہے، جہاں ہوتا ہے
اہلِ دل کے لیے سر مایہء جاں ہوتا ہے
جدید اولمپک کھیل عالمی پےمانے پر ہر چار سال بعد مختلف شہروںمیں منعقد ہوتے ہیں جن میں دنیا کے ہر گوشے سے ہزاروں شوقیہ (Amateur) کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ آج کل ایتھلیٹکس، باسکٹ بال ، باکسنگ ، سائکلنگ، فٹ بال، پیراکی، ہاکی ، جمناسٹک، کشتی رانی،گھڑ سواری ،ویٹ لفٹنگ ، نشانہ بازی ، گولا بازی، شمشیر زنی، سپہ گری،واٹر پولو،Canoeing(کشتی رانی کی ایک مخصوص قسم ) اور باد بانی کے مقابلے ہوتے ہیں۔کرکٹ ابھی ان مقابلوں سے باہر ہے۔ اختتامی تقریب کے موقع پر تمام کھلاڑیوں کا دوبارہ اجتماع ہوتا ہے ۔ یونان، میزبان ملک اور آئندہ مقابلوں کے میزبان ملک کے جھنڈے کو سلامی دی جاتی ہے۔ انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی کا صدر ، اگلے اولمپکس میں شرکت کی دنیا بھر کے نوجو ا نوں کو دعوت دیتا ہے اور میزبان ملک کا سربراہ کھیلوں کے اختتام کا اعلان کرتا ہے۔ پھر نقارے بجتے ہیں ، موسیقی کی دھن پر اولمپک شعلہ بجھا یا جاتاہے اور اولمپک جھنڈا اتارا جا تا ہے۔ یہ جھنڈا سفید کپڑے کا ہوتا ہے اور وسط میں پانچ رنگین دائرے ہوتے ہیںجو پانچوں براعظمو ںکی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں اولمپک کا بخار بھی اتر جاتا ہے۔ پاکستان 1948ءسے ان کھیلوں میں شرکت کررہا ہے۔ 1960ءکے روم اولمپکس میں پاکستان نے نصیر بُندہ کے واحد گول کے باعث ہاکی میں طلائی تمغہ جیت کر ہندوستان کی 34سالہ بالادستی کا خاتمہ کیا تھا۔ بعد کے برسوں میں پاکستان ہاکی کا ورلڈکپ ، ایشیا کپ، چیمپنیز ٹرافی ، سارک ٹرافی، اذلان شاہ ٹرافی کافاتح بھی بنا ۔ اصلاح الدین کی کپتانی کے دور میں تو بیک وقت کئی اعزاز پاکستان کے پاس رہے لیکن پھرہماری ہاکی پر ایسا زوال آیا کہ ایک بین الا قوامی مقابلے کے نو ملکوں میں پاکستان کا نمبرنواں تھا۔ کیسی بلندی ، کیسی پستی!