پی ٹی آئی پر پابندی کا قضیہ

وزیر خارجہ اور ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ نہیں ہوا، اتحادیوں سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔
تحریک انصاف پر پابندی کے حوالے سے حکومتی حلقوں میں سوچ پائی جاتی ہے جس کا اظہار حکومتی وزراء کی طرف سے پریس کانفرنسوں کے دوران کیا گیا۔تحریک انصاف کا شمار پاکستان کی  بڑی پارٹیوں میں ہوتا ہے۔ اس پر پابندی کے حوالے سے جو وجوہات بیان کی گئی ہیں اس پر سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ نون کے اندر اتفاق رائے پیدا ہونا چاہیے تھا۔اس کے بعد اتحادی پارٹیوں کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے۔مگر صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کے کئی لیڈر بھی پابندی کی تائید نہیں کر رہے جبکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے مخالفت کی گئی ہے۔ ق لیگ نے اسے عجلت میں کیا جانے والا فیصلہ قرار دیا ہے۔وزیر اطلاعات کی طرف سے جیسے ہی یہ پریس کانفرنس کی گئی پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت جو پہلے ہی کم نہیں تھا وہ مزید بڑھ گیا۔میڈیا پر ایک ہیجانی کیفیت نظر آئی۔اب ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ حتمی نہیں۔سوال یہ ہے کہ جب حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا تو میڈیا میں معاملہ اس طرح اٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔ماضی میں بھی پارٹیوں پر اسی طرح پابندیاں لگ چکی ہیں مگر وہ تجربات کامیاب نہیں ہوئے۔بادی النظر میں یہ مہم جوئی بھی کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ایسے اقدامات سے نفرتوں میں مزید اضافہ ہی ہوتا ہے جبکہ آج وسیع تر سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہے۔ اپنے روٹی روزگار کے مسائل میں گھرے عوام سسٹم اور حکومتی گورننس کے حوالے سے پہلے ہی مضطرب ہیں۔ایسے میں حکومت عوام کو ریلیف دینے کی طرف توجہ مبذول کرے۔

ای پیپر دی نیشن

بجٹ بھی اِک گورکھ دھندہ ہے

اندر کی باتشہباز اکمل جندرانصحافت میں رپورٹنگ کے شعبے سے کتنے ہی برس وابستہ رہنے کے بعد بھی کامرس کے شعبے سے نابلد رہا- کامرس ...