سر راہے
خیبر پی کے میں مقامی علماء کی طرف سے سیاحوں کیلئے ہدایت نامہ جاری
خدا کرے یہ افواہ ہی ہو۔ اگر حقیقت میں ایسا ہوا تو اس کا سب سے زیادہ برا اثر ہماری سیاحت پر پڑے گا۔ پہلے ہی ہمارے ہاں غیرملکی سیاحوں کو کونسی سہولتیں میسر ہیں کہ وہ جھک مارنے یہاں آئیں۔ یہ جو ملکی سطح پر سالانہ دو یا تین لاکھ میں خیبر پی کے میںپُرفضا اور حسین مقامات کا رخ کرتے ہیں۔ اس حقیقی یا افسانوی ہدایت نامہ کے بعد خوفزدہ ہوکر ان دور دراز پہاڑی علاقوں کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیں گے۔ سوشل میڈیا پر اس ہدایت نامہ کے مطابق غیرمقامی افراد سیاحوں کو کہا گیا ہے کہ وہ دوران سیاحت موسیقی لگانے سے پرہیز کریں۔ معلوم نہیں قوالیوں کو سننے کی اجازت ہوگی یا نہیں۔ اسی طرح ویڈیو بنانے سے بھی اجتناب کا کہا گیا ہے۔ شاید فوٹو گرافی کا خیال نہیں آیا۔ بقول ان کے یہ علاقائی اقدار سے موافقت نہیں رکھتے۔ اسی طرح لباس کے حوالے سے بھی سیاحوں کو کہا گیا ہے کہ وہ مناسب لباس پہنیں۔ شاید اس سے مراد یہ ہے خواتین برقعہ یا چادر پہنیں اور مرد حضرات شلوار قمیض، ٹوپی اور رومال ضرور کاندھے پر رکھیں۔ اب بھلا ایسے احکامات کے بعد کون ان علاقوں کا رخ کرے گا۔ ایک طرف حکومت سیاحت کو انڈسٹری کا درجہ دیکر سالانہ لاکھوں غیرملکیوں کو پاکستان کی سیاحت کیلئے لانے کا سوچ رہی ہے۔ دوسری طرف ایک بار پھر ہدایت نامے جاری ہونے لگے ہیں۔ اس کا سراسر نقصان سیاحت کی صنعت کو ہوگا۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں سیاحت عروج پر ہے، وہاں کی حکومتیں سیاحوں کو ہرممکن سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں تو رہائش، خوراک او آمدورفت کی ناقص اور گراں سہولتیں دیکھ کر ملکی سیاح بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ حکومت اس طرف ضرور توجہ دے۔
٭٭٭٭٭
ماسک پہنے طلبہ کا حل شدہ پرچے لے جانے والے سپرنٹنڈنٹ پر تشدد، پرچے اور موٹرسائیکل جلا دی
یہ واقعہ بلوچستان سندھ یا خیبر پی کے میں نہیں پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پیش آیا جہاں کوئی اتنی دیدہ دلیرانہ واردات کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ طلبہ اب اتنے نڈر ہوگئے ہیں۔ ناجائز اسلحہ سیاسی جماعتوں اور غنڈہ عناصر کی سرپرستی نے پہلے کیا کم طلبہ کا بیڑہ غرق کررکھا تھا اب یہی کمی رہ گئی تھی کہ طلبہ کھلے عام پیپر چھین کر جلا دیں۔ شاید جو لوگ نقل مار کر بھی پیپر حل نہیںکرسکتے تھے انہوںنے یہ نیا طریقہ سیکھ لیا ہے اب وہ حل شدہ پیپر چھین کر جلا رہے ہیں انہوں نے اپنے علاوہ دوسرے بے چارے پڑھنے والے بچوں کے ساتھ جو زیادتی کی ہے ان کا کیا قصور تھا۔ کالجوں میں سیاسی جماعتوں کے پروردہ آوٹ سائیڈر غنڈے جس طرح وہاں بیٹھ کر کالجوں کا ماحول خراب کرتے ہیں اس کا علم کس کو نہیں ۔ حکومت ان سیاسی جماعتوں کے غنڈوں کو نجانے کیوں برداشت کرتی ہے۔ قانون کے مطابق کالجوں، یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی ہے مگر اس کے باوجود کھلے عام طلبہ تنظیموں کے کارکن دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ اس سینہ زوری کی شہ ہے کہ نالائق طالب علم سارا سال دربدر پھرتے ہیں۔ امتحان میں دھونس دھاندلی سے نقل کی کوشش کرتے ہیں۔ موقع نہ ملنے پر حل شدہ پرچے چھین کر جلا دیتے ہیں۔ اس سے زیادہ علم کی بے حرمتی کیا ہوگی۔ اس سپرنٹنڈنٹ کو زدوکوب کرنے کے علاوہ اس کی موٹرسائیکل بھی پرچوں کے ساتھ جلا دی اس کا ازالہ بھی ہونا چاہئے…
٭٭٭٭٭
آزادکشمیر الیکشن مہم میں آصفہ زرداری کی دبنگ انٹری
جی ہاں جس طرح آصفہ نے مظفرآباد کے جلسے کو اپنے خطاب اور لہجے سے گرمایا وہ واقعی ان کے روشن سیاسی مستقبل کی طرف اشارہ ہے۔ سچ کہیں تو لوگوں نے بلاول زرداری کی نسبت آصفہ زرداری کو توجہ سے سنا اور دل کھول کر انہیں داد بھی دی۔ شاید آصف زرداری بھی بلاول کی طرف سے زیادہ پرامید نہیں رہے۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق آصفہ کو میدان سیاست میں آگے لانا چاہتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں وڈیرے، چودھری، سردار، خان وغیرہ بیٹوں کو بچانے کیلئے ان پر بیٹیاں قربان کرنے میں رتی بھر تامل نہیں کرتے۔ اس لئے اب بے نظیر بھٹو اور زرداری صاحب کی اتنی بڑی جائیداد،بنک بیلنس، زمینیں، کاروبار جو اندرون ملک اور بیرون ملک موجود ہے ان کو سنبھالنے کیلئے انہیں وارث کی ضرورت ہے تو وہ چاہتے ہیں کہ بلاول ان کی ذاتی ومالی جاگیر داری اور سرداری کا وارث بنے۔ سیاست میں زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں نجانے کب تخت ہو اور کب تختہ اس لئے اب وہ بینظیر کی سیاسی وراثت آصفہ کے سپرد کرنا چاہتے ہیں۔ بہرکیف وجہ جو بھی ہو آصفہ زرداری نے مظفر آباد آزادکشمیر میں اپنے پہلے جلسے میں ہی رنگ جما اور خوب گرج برس کر حکمرانوں کے لتے لئے۔ اب دیکھتے ہیں الیکشن میں تیر چلتا ہے شیر گرجتا ہے یا بلا رنز اگلتا ہے۔ عید کے چند روز بعد سب کچھ سامنے ہوگا۔ پیش بندی کے طور پر اپوزیشن الیکشن میں دھاندلی کا رونا بھی رو رہی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام بھی آئے…
٭٭٭٭٭
امریکہ 2030 کے بعد انسانی دماغ کو چپ سے کنٹرول کرنے کا انکشاف
ُچلیں اب یہ ایک نئی دنیا کی طرف حضرت انسان کے سفر کی ایک نئی داستان بننے جارہی ہے۔ سائنس کی دنیا درحقیقت عجائبات کی دنیا ہے قدم قدم پر اک نیا جہان حیرت ہمارے سامنے آتا ہے۔سب سے مشکل کام تو خود حضرت انسان کو فتح کرنا تھا اس پر قابض ہونا تھا۔ بے شک غلام بنا کر ہم کسی دوسرے کو اپنے احکامات پر چلنے پرمجبور کردیتے ہیں مگر اس کے اندر کی انا اور آزادی کی خواہش ختم نہیں کرسکتے۔ اب امریکہ نے ایسی چپ ایجاد کرلی ہے جو تجربات کے آخری مراحل میں ہے۔ اگر یہ بن گئی تو پھر جس انسان میں یہ چپ فٹ کی جائے گی وہ براہ راست امریکہ کے کنٹرول میں آجائے گا۔ یوں ہر جگہ امریکی پالیسیوں کا بول بالا ہوگا اور انسانی غلامی کی نئی داستانی رقم ہوگی۔ اب امریکہ بے کار لوگوں کی فوج جمع کرنے کی بجائے عقل مندوں کو چپ لگا کر دنیا بھر میں آرام سے بیٹھ کر اپنی حکمرانی قائم کرے گا۔ صدیوں کی بات نہیں یہ کام اب جلد ہی کسی بھی وقت شروع ہوسکتا ہے اور ہمارے جیسے سائنس و ٹیکنالوجی کے دشمن جھولیاں اٹھائے صرف اسے کوستے ہی رہیں گے…
٭٭٭٭٭